72923 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے متفرق احکام |
سوال
میں جس کمپنی میں کام کرتا ہوں، وہاں کبھی کام وغیرہ ختم ہوجانے کی وجہ سے میں فارغ ہوتا ہوں تو اپنا کوئی ذاتی کام کرلیتا ہوں۔ کیا میرے لیے اُس وقت میں وہ کام کرنا جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
چونکہ عام طور سے کمپنی وغیرہ میں ملازمین کو متعین وقت میں کام کرنے کا پابند بنایا جاتا ہے، لہذا اُس متعین وقت میں ملازمین کے لیے اپنا ذاتی کام کرنا جائز نہیں۔ البتہ اگر مالک خود اجازت دے یا آپ کے پاس کوئی کام باقی نہ ہو اور دوسرا کام کرنے سے کمپنی کا کسی قسم کا حرج نہ ہو تو گنجائش ہوگی۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: (والثاني)، وهو الأجير (الخاص)، ويسمى أجير واحد، (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص، ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة، وإن لم يعمل، كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم).(الدر المختار مع رد المحتار: 6/69)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: اعلم أن الأجير للخدمة أو لرعي الغنم إنما يكون أجيرا خاصا إذا شرط عليه أن لا يخدم غيره أو لا يرعى لغيره أو ذكر المدة أولا، نحو أن يستأجر راعيا شهرا، ليرعى له غنما مسماة بأجر معلوم، فإنه أجير خاص بأول الكلام. أقول: سره أنه أوقع الكلام على المدة في أوله، فتكون منافعه للمستأجر في تلك المدة، فيمتنع أن تكون لغيره فيها أيضا.(رد المحتار: 6/70)
وقال أیضا: قوله: (وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل، ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي: وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة، ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة. (رد المحتار: 6/70)
صفی ارشد
دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی
6/ شعبان/ 1442
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |