021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نیلامی کے سامان کوبند کاٹن میں بغیر دیکھے تول کرخریدوفروخت کرنے کا حکم
72730خرید و فروخت کے احکامبغیر دیکھے خریدنے بیچنے کے مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں  مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل ایک آن لائن کاروبار بہت چل رہا ہے کہ ہم کسی ویب سائٹ کے ذریعے باہر کی کسی کمپنی سے سامان خریدتے ہیں ۔وہ سامان پاکستان پہنچ کر کسٹم کی وجہ سےبعض اوقات اصل قیمت سے بہت مہنگا پڑتا ہے،تو وہ ہم چھوڑ دیتے ہیں۔پھر وہ کورئیرسروس وہ سامان واپس اسی کمپنی کو بھیج دیتی ہے۔چنانچہ بعد میں وہ کمپنی اس سامان کو نیلام (Auction) کرتی ہے۔وہ سامان اب نیلام ہو کر پاکستان آرہا ہے۔یہ بند کاٹن اور بورے میں ہوتا ہے،جسے تول کربیچا جاتا ہے۔اس کے اندر یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ کون سی چیز ہے،لیکن یہ ضرور ہوتا ہے کہ اس میں گفٹ کے سامان کی طرح مختلف چیزیں ہوتی ہیں۔مثلاً بچوں کے کپڑےاورجوتے،کاسمیٹک کا سامان،موبائل کے کور،ہیڈفون،چارجر اور اس طرح کی مفید اشیاء ہوتی ہیں۔البتہ ملک اور کمپنی کا نام بھی معلوم ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے گاہک کو قانوناً کوئی مسائل نہیں ہوتے۔اب ہم بیس کلو کا تھیلا تلوا دیں،تو کبھی دوگنا نفع ہو جاتا ہے،کبھی کم نفع اور بعض اوقات نقصان کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔کاٹن اپنی مرضی کا لےسکتے ہیں،البتہ کاٹن کی خریداری کے بعد واپسی کا اختیار بلکل نہیں ہوتا۔کیا اس طرح کی خریداری جائز ہے؟ اور ایسے کاروبار کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں مبیع کی جنس ، نوع اور وصف  کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا ۔البتہ بائع  کاٹن کی تعیین کرتا ہے، اس کا وزن کرتا ہے اور یہ بات بھی یقینی ہوتی ہے کہ یہ مختلف قسم کا نیلامی کا سامان ہے اور قیمت بھی اسی حساب سے متعین کی جاتی ہے اور یہ کہ یہ فلاں ملک اور فلاں کمپنی کا ہے۔ان تمام قرائن سے سامان کی اتنی تعیین ہو جاتی ہے کہ سامان کی مالیت بعض اوقات کم بھی نکل آئے تو دوکاندار اور خریدار کے درمیان نزاع کا  امکان اور وقوع کم ہے اور جانبین کی رضا اکثر قریب بہ کل ہے،لہٰذا  مذکورہ  نیلام شدہ سامان کی خریدو فروخت  کسی قدر ابہام کے باوجود جائز  ہے۔

البتہ خریدار کو کاٹن کھولنے کے بعد خیارِ رؤیت کی وجہ سے واپسی کا اختیار ہوگا یا نہیں؟ تو یہ بات مدنظر

رہے کہ خیار رؤیت اسقاط کی شرط سے ساقط نہیں ہوتا۔البتہ مشتری کی طرف سے ایسا تصرف جو مبیع کو عیب دار بنائے اور قابل واپسی نہ چھوڑے، یہ خیار رؤیت کو ساقط کردیتا ہے۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ کاٹن کھولنے کے بعد اس کی بازاری قیمت گر جاتی ہے،کوئی دوسرا گاہک اسے خریدنےکے لیے تیار نہیں ہوتا  اور پھر دوسرے ممالک سے منگوائی گئی چیز کو کھولنے کے بعد واپس کرنے سے کرایہ اور قیمت کا  بہت زیادہ حرج اور نقصان ہوتا ہے،لہٰذا کاٹن کھولنے کے یہ اثرات اس سامان کے اندر ایسے عیب دار تصرف کے مترادف ہیں جن سے خیارِ رؤیت اور واپسی کا حق ختم ہوجانا چاہیے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:(وشرط لصحته معرفة قدر) مبيع .
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی : وأما الثالث: وهو شرائط الصحة فخمسة
وعشرون: منها ومعلومية المبيعقوله: (وشرط لصحته معرفة قدر مبيع وثمن) ككر حنطة، وخمسة دراهم ،أو أكرار حنطة، فخرج ما لو كان قدر المبيع مجهولا ،أي جهالة فاحشة، فإنه لا يصح، وقيدنا بالفاحشة؛  لما قالوه :لو باعه جميع ما في هذه القرية  أو هذه الدار، والمشتري لا يعلم ما فيها، لا يصح لفحش الجهالة ،أما لو باعه جميع ما في هذا البيت، أو الصندوق، أو الجوالق، فإنه يصح؛ لأن الجهالة يسيرة قال: في القنية: إلا إذا كان لا يحتاج معه إلى التسليم والتسلم، فإنه يصح بدون معرفة قدر المبيع، كمن أقر أن في يده متاع فلان غصبا أو وديعة ثم اشتراه جاز، وإن لم يعرف مقداره.
 ) الدرالمختار مع ردالمحتار:4/505،528)
 قال العلامۃ علاؤالدین الکاسانی رحمہ اللہ تعالی :(ومنها) أن يكون المبيع معلوما ،وثمنه معلوما علما يمنع من المنازعة.فإن كان أحدهما مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة فسد البيع، وإن كان مجهولا جهالة لا تفضي إلى المنازعة لا يفسد؛ لأن الجهالة إذا كانت مفضية إلى المنازعة كانت مانعة من التسليم والتسلم ،فلا يحصل مقصود البيع، وإذا لم تكن مفضية إلى المنازعة لا تمنع من ذلك، فيحصل المقصود.(بدائع الصنائع:5/156)
قال العلامۃ نظام الدین رحمہ اللہ تعالی :ولو قال: بعتك ما في هذا الجوالق أو ما في البيت  جاز وله الخيار إذا رآه، ولو قال: بعتك ما في هذه الدار أو ما في هذه القرية لا يجوز؛ لأن الجهالة متفاحشة كذا في محيط السرخسي.(الفتاوی الھندیۃ:3/60)
قال العلامۃ  المرغینانی  رحمہ اللہ تعالی:وما يبطل خيار الشرط من تعيب أو تصرف يبطل خيار الرؤية، ثم إن كان تصرفا لا يمكن رفعه، كالإعتاق والتدبير، أو تصرفا يوجب حقا للغير، كالبيع المطلق والرهن والإجارة، يبطله قبل الرؤية وبعدها؛ لأنه لما لزم تعذر الفسخ، فبطل الخيار.(الھدایۃ:3/34)
قال العلامۃ البابرتی رحمہ اللہ تعالی :وفيه بحث من وجهين: أحدهما ما قيل إن
بطلان الخيار قبل الرؤية مخالف لحكم النص الذي رويناه. والثاني أن هذه التصرفات إما أن تكون صريح الرضا أو دلالته، وكل واحد منهما لا يبطل الخيار قبل الرؤية فكيف أبطلته؟ وأجيب عن الأول بأن ذاك فيما أمكن العمل بحكم النص، وهذه التصرفات لصدورها عن أهلها، مضافة إلى محلها،انعقدت صحيحة، وبعد صحتها لا يمكن رفعها، فيسقط الخيار ضرورة. وعن الثاني بأن دلالة الرضا لا تربو على صريحه إذا لم تكن من ضرورات صريح آخر، وهاهنا هذه الدلالة من ضرورة صحة التصرفات المذكورة ،والقول بصحتها مع انتفاء اللازم محال.(العنایۃ:6/341)

عرفان حنیف

دارالافتاء،جامعۃالرشید،کراچی

  6 شعبان /1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عرفان حنیف بن محمد حنیف

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب