021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترک قابلِ تقسیم چیز کے ہبہ کا حکم
73223ہبہ اور صدقہ کے مسائلکئی لوگوں کو مشترکہ طور پرکوئی چیز ہبہ کرنے کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

        میرے والد محمدیوسف کی وفات کے بعد میری والدہ "صابری" نے مکان میرے اورمیرے بھائی کی بیوہ نجمہ خاتون کے نام رجسٹرڈ کروادیاتھا ،جبکہ میرے بھائی محمد اقبال مرحوم کا انتقال میرے والد محمد یوسف سے پہلے ہوگیاتھا،میری بھابھی نجمہ خاتون کی کوئی اولاد بھی نہیں ہے اورنجمہ خاتون کااس وقت ایک بھائی عبدالستاراوروالدہ حشمت بی بی اس وقت حیات ہیں۔

     نجمہ خاتون نے دوسرا نکاح شیرمحمدکے ساتھ کیا تھا جو اس وقت زندہ ہے مگر نجمہ خاتون کی اس میں سے بھی کوئی اولاد نہیں ہے،نجمہ خاتون نے اپنی زندگی کے آخری ایام میرے پاس گزارے، کیونکہ وہ اپنے دوسرے شوہر شیرمحمد سے خلع لینا چاہتی تھی اوران سے علیحدگی اختیارکرناچاہتی تھی لیکن جب ان کا انتقال ہوا تووہ شیرمحمد کے نکاح میں ہی تھی، اب وہ مکان جو کافی عرصہ سے ایک پلاٹ کی شکل میں ہے اور بند ہے اورمیرے قبضے میں ہے ،اب میں یہ معلوم کرناچاہتی ہوں کہ مکان کا وہ حصہ جو نجمہ کے نام رجسٹرڈ کروایاگیاتھا کس کے نام پر منتقل ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ ہبہ صحیح ہونےکے لئے قبضہ تام شرط ہے اورقبضہ تام تقسیم کئے بغیر نہیں ہوسکتا،اس لئے جو چیزقابلِ تقسیم ہواس کے ہبہ کے لئےتقسیم کرکےموہوب لہ کو اس  کا حصہ دینا  اورقبضہ کرانا ضروری ہوتاہے،بغیرتقسیم کے یوں ہی مشترک چیز کاہبہ صحیح نہیں ہوتا،البتہ اگردینے والالینے والے میں سے کسی کو اس مشترک چیز کی تقسیم کاوکیل بنادے تواس کے بعدوہ سب  اس مشترک چیز کوباہم تقسیم کردیں تب بھی ہبہ درست ہوجاتاہے۔

مسئولہ صورت میں جس مکان کی بات ہورہی ہے اگروہ  محمد یوسف مرحوم چھوڑکرفوت ہوئے ہیں جیسےکہ یہی سوال سے ظاہرہورہاہے  وہ یہ  ان کا ترکہ ہے جس کو اس کے شرعی وارثوں میں تقسیم کرنا لازم ہے، جب آپ کی والدہ نےوہ  مکان بغیر تقسیم کے آپ اوراپنےبہوکے نام کردیااورتقسیم کرکے ہرایک کواس کا  حصہ الگ الگ  کرکے نہیں دیا تو گویا انہوں نےمیراث میں سے  اپنا حصہ مشترک طورپر آپ دونوں کو ہبہ کیااورقابلِ تقسیم چیزوں میں اس طرح کا ہبہ کرنا چونکہ شرعاً صحیح نہیں ہوتا، لہذا یہ مکان بدستورمحمد یوسف مرحوم کے وارثوں کی ملک میں رہا،اورنجمہ کا حصہ اس میں ثابت نہیں ہوا،لہذااب یہ مکان محمد یوسف مرحوم کےوارثوں میں ان کےشرعی  حصوں کے حساب سے تقسیم ہوگا۔اورآپ کی بھابھی نجمہ کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا،کیونکہ ہبہ صحیح نہیں ہوا اورشرعی وارث وہ ہے نہیں۔

اگرمرحوم محمد یوسف کےشرعی وارث یہی دویعنی بیوی اوربیٹی ہوں تو پھر یہ مکان ان میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ اس کو 8برابرحصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ یعنی 12.5فیصد مرحوم یوسف کی بیوی" صابری" صاحبہ کو دیا جائےگا اورباقی 7حصےیعنی 87.5فیصدمحمد یوسف کی بیٹی یعنی آپ کو دیئے جائیں گے۔

حوالہ جات
وَإِذَا وَهبَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ نَصِیْبًا مُسَمّٰی مِنْ دَارٍ غَیْرَ مَقْسُوْمَۃٍ وَسَلَّمَہُ إِلَیْہِ مُشَاعًا أَوْ سَلَّمَ إِلَیْہِ جَمِیْعَ الدَّارِ لَمْ یَجُزْ یَعْنِيْ لایَقَعُ الْمِلْکُ لِلْمَوْہُوْبِ لَہُ بِالْقَبْضِ قَبْلَ الْقِسْمَۃِ عِنْدَنَا الخ۔ (مبسوط سرخسي ۱۲/ ۶۴)
فإن قسّمہ أي الواهب بنفسہ أو نائبہ أو أمر الموہوب لہ بأن یقسم مع شریکہ کل ذٰلک یتمُّ بہ الہبۃ کما ہو ظاهر لمن عندہ أدنی فقہٍ۔ (شامی ۸؍۴۹۵ زکریا)
وَلَو وَهبَ مِنْہُ نِصْفَ الدَّارِ وَسَلَّمَ إِلَیْہِ بِتَخْلِیَۃِ الْکُلِّ، ثُمَّ وَہَبَ مِنْہُ النِّصْفَ الآخَرَ وَسَلَّمَ لَمْ تَجُزْ الْہِبَۃُ، لِأَنَّ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا ہِبَۃُ الْمُشَاعِ، وَہِبَۃُ الْمُشَاعِ فِیْمَا یُقْسَمُ لاتَنْفُذُ إِلاَّ بِالْقِسْمَۃِ وَالتَّسْلِیْمِ، وَیَسْتَوِيْ فِیْہِ الْجَوَابُ فِيْ ہِبَۃِ الْمُشَاعِ بَیْنَ أَنْ یَکُوْنَ مِنْ أَجْنَبِيٍّ أَوْ شِرکَۃِ شَرِیْکِہٖ۔ (بدائع زکریا ۵/ ۱۷۲، کراچی ۶/ ۱۲۱)
ولنا إجماع الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم فإنہ روي أن سیدنا علي رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: ’’من وهب ثلث کذا أو ربع کذا لا یجوز مالم یقاسم‘‘ وکل ذٰلک بمحضر من أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولم ینقل أنہ أنکر علیہم منکر فیکون أجماعاً۔ (بدائع الصنائع ۵؍۱۷۱ زکریا)
عن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: ما بال أحدکم ینحل ولدہ نحلاً لا یحوزہا ولا یقسمُہا ویقول: إن متُّ فہولہ، وإن مات رجعتْ إلي وأیم اللّٰہ لا ینحل أحدکم ولدہ نحلاً لا یحوزہا ولا یقسمہا، فیموت إلا جعلتہا میراثاً لورثتہ۔ (المنصف لابن أبي شیبۃ ۱۰؍۵۲۰ رقم: ۳۸۹۵، بدائع الصنائع ۵؍۱۷۱)
واعتمادنا في المسئلۃ علی إجماع الخلفاء الراشدین: فقد روینا في أول الکتاب شرط القسمۃ عن أبي بکر وعمر وعثمان وعلي رضي اللّٰہ عنہم من وہب ثلث کذا أو ربع کذا لا تجوز حتی یقاسم والمعنی فیہ أن شرط القبض منصوص علیہ في الہبۃ فیراعي وجودہ علی أکمل الجہات التي تمکن۔ (المبسوط للسرخسي ۱۲؍۶۵)
وفي الجملۃ: وإن الخلفاء الراشدین وغیرہم اتفقوا علی أن الہبۃ لا تجوز إلا مقبوضۃ محوزۃ۔ (الفقہ الإسلامي وأدلتہ ۴؍۶۹۱)
قال اللہ تعالی:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ......... وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ...... }             [النساء: 12, 11]

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

 25/10/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب