021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پلاٹ کا مالک فوت ہوجائے اورورثہ کا پتہ نہ چل سکے تو کیا اس پر مدرسہ تعمیر کیاجاسکتاہے؟
72619امانتا اور عاریة کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

        ہمارے گھر کے متصل ایک خالی پلاٹ ہے جس کے مالکِ مکان نے 1980ء میں اس پلاٹ کی چابی دیدی تھی اورکہا تھا کہ اس پلاٹ کی حفاظت آپ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ 200ء سے اس میں نمازِتراویح اوررمضان کے مہینے میں پنجگانہ نمازباجماعت کا اہتمام کیاجاتاہے ۔ہر سال اس پلاٹ میں مذکورہ اعمال کا اہتمام کیاجاتاہے۔اب تو اس پلاٹ میں مدرسہ بھی قائم کردیا ہے اورالحمدللہ بچوں ااوربچیوں کی کثیر تعداد یہاں دینی تعلیم حاصل کررہی ہیں اوریہاں درسِ قرآن اوردرس حدیث کا عمل بھی جاری ہے۔ اب تک یہ امورخالی پلاٹ پر اد کئے جارہے تھے جس کی وجہ سے آئے دن کوئی نہ کوئی تنگی درپیش ہوتی رہتی تھی تواب یہ ارادہ کیا کہ اس کی تعمیر کی جائے اورمنظم طریقے سے مدرسہ تعمیر کیاجائے ،اس کے لیے ہم نے مالکِ پلاٹ سے ملنے کا ارادہ کیا تاکہ اس سے یہ پلاٹ خرید سکیں، ہم مالکِ پلاٹ کے گھر گئے تو پتہ چلا کہ وہ تو وفات پاچکے ہیں اوران کے ورثہ کے بارےمیں معلوم جب کیا تو محلے والوں نے بتایا کہ ہمیں ان کے بارے میں نہیں ہے کہ وہ کہاں گئےہیں ۔ان حالات کی روشنی میں مجھے درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔

١۔ کیا اس جگہ مالکِ پلاٹ کے لیے صدقہ جاریہ کے طورپر مدرسہ تعمیرکرادیں ؟

۲۔ اگرہم مدرسہ تعمیرکرادیں تو کیا یہ عمل ہمارے لیے شرعاًقابلِ قبول ہوگا؟

۳۔ محلے میں اس طرح کے مدرسہ کی اشد ضرورت بھی ہے تاکہ لوگوں کے عقائد کی حفاظت ہوسکے کیا ہماری یہ سوچ صحیح ہے؟

۴۔تیس سال ہوگئے ہیں اب تک کسی وارث کا پتہ نہیں چلا،اگر بعد میں کوئی آجائے تواس کے ساتھ ہم کیا معاملہ کریں گے ؟

۵۔ہم اس کی تعمیر پر جو پیسہ خرچ کریں گے تو کیا ہمیں اس پر اجر ملے گا؟

٦۔کچھ لوگ مذکورہ عمل یعنی تعمیرپر اعتراض کررہےہیں،کیاان کا اعتراض صحیح ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

     پہلے بطورتمہید یہ سمجھ لیں کہ مذکورہ پلاٹ آپ کے پاس امانت ہے اور امانت کاحکم یہ ہے کہ اگراس مالک مرگیاہوتو اس کے ورثاء کو حتی الامکان تلاش کیاجائے، اگرورثہ میں مل جائیں تو امانت ان کے سپرد کی جائےاوراگرتلاش کے باوجود وہ نہ مل سکیں توپھر اس صورت میں بہتر تو یہ ہوگا کہ جس کے پاس یہ امانت مالک رکھواکر فوت ہواہےوہ  اس پلاٹ کوپوری ایمانداری کے ساتھ محفوظ  رکھے،اوراس میں کسی قسم کا تصرف نہ کرے تاکہ وارث  آجانے کی صورت میں کوئی مشکل پیش نہ آئے،تاہم اگرایساکرنا امین کےلیےمشکل ہوجائےیا پلاٹ پر قبضہ وغیرہ کا خطرہ پیداہوجائے تو پھر بہتر یہ ہےکہ عدالت کے ذریعےقانونی چارہ گوئے کرتے ہوئے اس پلاٹ کوبازاری قیمت پرفروخت کردےیا امین خود خریدلےاورقیمت کو وارثوں کےلے محفوث کرلے،خریدنے کے بعدامین چاہے تو اس پر مدرسہ کی تعمیربھی ہوسکے گی، مدرسہ تعمیر ہونے کے بعد  اگرکوئی وارث آجائےتو اسےقیمت حوالہ کردی جائے ۔

تمہید کے بعد اب آپ کے سوالات کےمختصر جوابات درجِِ ذیل ہیں:

١۔نہیں، البتہ اگرپلاٹ کے ضیاع کا خطرہ ہواورعدالت کی اجازت سےیہ پلاٹ خریدکرقیمت کو مالک کے ورثہ کےلیے  محفوظ کرلیا گیا ہوتو اس صورت میں اس پرمدرسہ تعمیرہوسکے گا۔

۲۔قابلِ قبول نہیں ہوگا، الا یہ کہ جواب نمبرایک میں ذکرہ کردہ طریقہ اختیارکرکے تعمیر کیا گیا ہو۔

۳۔  لوگوں کے عقائد کی حفاظت جیسے اہم ضرورت کے پیشِ نظرتعمیرِ مدرسہ کی سوچ بلاشبہ ایک عمدہ سوچ ہے مگراس کےلیے ضروری ہےامانت والے پلاٹ کے بجائے اس عظیم مقصد کےلیے کوئی اور پلاٹ خرید کراس پر مدرسہ کی تعمیرکی جائے۔

۴۔اس لیے بہترتو یہ ہےکہ اس پلاٹ میں کسی قسم کا تصرف نہ کیاجائے اوراس کو جو کا تو رہنے دیاجائے تاکہ مالک کے ورثہ آنے پر کوئی مشکل پیش نہ آئے،تاہم ضیاع کےخطرےکے پیشِ نظر اگرباقاعدہ عدالت سےرجوع کرلیاگیا ہو اورعدالت نے بھی پوری تحقیق کے بعدورثہ نہ ملنے کی وجہ سےپلاٹ فروخت کرکےقیمت امین کے پاس محفوظ کرلیا ہواورپھر اس پرامین نے مدرسہ تعمیرکیا ہوتو پھرورثة اعتراض نہیں کرسکیں گے اوران کو پلاٹ کی محفوظ کردہ بازاری قیمت دیدی جائے گی۔

۵۔اگر شرعی اورتمام قانونی تقاضے جن کا ذکراوپر کے جوالات میں کیاگیاہے پورے کرکے مدرسہ کیا گیا ہو تو ان شاء اللہ اجرسے محرومی نہیں ہوگی۔

٦۔جی بالکل درست ہے ،البتہ اگرتمام شرعی اورقانونی تقاضے پورے کرکے مدرسہ تعمیرکیاجائے توپھر اس پر اعتراض نہیں بنتا۔

حوالہ جات
وفی الدرالمختار(8/526)
’’تسلیط الغیر علی حفظ مالہ صریحااو دلالۃ (ورکنھا الإیجاب صریحا) کأودعتک (اوکنایۃ) (أو فعلا)
کما لو وضع ثوبہ بین یدی رجل ولم یقل شیئا فھو إیداع(والقبول من المودع صریحا)کقبلت(أو دلالۃ)کما لو سکت عند وضعہ   فإنہ قبول دلالۃ کوضع ثیابہ فی حمام بمرأی من الثیابی ملتقطاً   (الدرالمختار مع ردالمحتار، کتاب الایداع، ج08، ص526، مطبوعہ کوئٹہ)
وفی العالمگیریة(4/354)
غاب المودع ولا یدری حیاتہ  و لا  مماتہ   یحفظھا     ابدا   حتی یعلم       بموتہ      و        ورثتہ کذا       فی    الوجیز    للکردری           و      لایتصدق            بھابخلاف اللقطۃ‘‘(فتاوی عالمگیری،کتاب الودیعۃ،الباب السابع فی ردالودیعۃ،ج4،ص354،مطبوعہ کوئٹہ )
وفی كتاب المبسوط للسرخسي(11/130)
(وَإِذَا) مَاتَ رَبُّ الْوَدِيعَةِ: فَالْوَارِثُ خَصْمٌ فِي طَلَبِ الْوَدِيعَةِ؛ لِأَنَّهُ خَلِيفَةُ الْمُوَرِّثِ، قَائِمٌ مَقَامَهُ بَعْدَ مَوْتِهِ.
وفی مجمع الضمانات  (ج 2 / ص 127)
لَوْ غَابَ رَبُّ الْوَدِيعَةِ وَلَا يُدْرَى أَحَيٌّ هُوَ أَمْ مَيِّتٌ يُمْسِكُهَا أَبَدًا حَتَّى يَعْلَمَ مَوْتَهُ فَإِنْ مَاتَ إنْ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ دَيْنٌ مُسْتَغْرِقٌ يَرُدُّهَا عَلَى الْوَرَثَةِ وَإِنْ كَانَ يَدْفَعُهَا إلَى وَصِيَّةٍ مِنْ الْخُلَاصَةِ.
مجلة الأحكام العدلية (المادة رقم 786 )
 فَإِذَا كَانَ صَاحِبُهَا غَائِبًا يُرَاجِعُ الْمُسْتَوْدَعُ الْحَاكِمَ وَهُوَ أَيْضًا يَأْمُرُ بِإِجْرَاءِ الأَصْلَحِ وَالأَنْفَعِ فِي حَقِّ صَاحِبِ الْوَدِيعَةِ. مِثْلُ إنْ كَانَ إيجَارُ الْوَدِيعَةِ مُمْكِنًا يُؤَجِّرُهَا الْمُسْتَوْدَعُ بِرَأْيِ الْحَاكِمِ وَيُنْفِقُ مِنْ أُجْرَتِهَا وَيَحْفَظُ الْفَضْلَ لِلْمُودِعِ. أَوْ يَبِيعُهَا بِثَمَنِ مِثْلِهَا. وَإِنْ كَانَ إيجَارُهَا غَيْرَ مُمْكِنٍ يَبِيعُهَا فِي الْحَالِ بِثَمَنِ مِثْلِهَا أَوْ بَعْدَ أَنْ يُنْفِقَ عَلَيْهَا مِنْ مَالِ نَفْسِهِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَيَطْلُبَ مَصْرِفَ الثَّلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ صَاحِبِهَا وَأَمَّا إذَا أَنْفَقَ بِدُونِ إذْنِ الْحَاكِمِ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ مَا أَنْفَقَهُ مِنْ الْمُودِعِ.
وفی كتاب درر الحكام في شرح مجلة الأحكام[علي حيدر2/319
إذَا كَانَ صَاحِبُ الْوَدِيعَةِ غَائِبًا يُرَاجِعُ الْمُسْتَوْدَعُ الْحَاكِمَ وَإِذَا بَاعَهَا بِأَمْرِ الْحَاكِمِ فَلَا ضَمَانَ. (رَاجِعْ الْمَادَّةَ 91) .وَأَمَّا إذَا بَاعَهَا بِلَا أَمْرِ الْحَاكِمِ فَإِنْ كَانَ فِي بَلْدَةٍ أَوْ فِي مَوْضِعٍ يُمْكِنُهُ مُرَاجَعَةُ الْحَاكِمِ كَمَنْ فِيهِ يَضْمَنُ أَيْضًا. (رَاجِعْ الْمَادَّةَ 96) . وَلَكِنْ إذَا بَاعَ لِعَدَمِ إمْكَانِهِ مُرَاجَعَةُ الْحَاكِمِ كَوُجُودِهِ فِي الْمَفَازَةِ مَثَلًا جَازَ؛ لِأَنَّ الضَّرُورَاتِ تُبِيحُ الْمَحْظُورَاتِ بِحُكْمِ الْمَادَّةِ (21) .وَمَعَ ذَلِكَ إذَا لَمْ يَبِعْ الْمُسْتَوْدَعُ الزَّوَائِدَ الْمَذْكُورَةَ فَسَدَتْ بِمُكْثِهَا فَكَمَا أَنَّهُ لَا يَلْزَمُهُ الضَّمَانُ فِي الْوَدِيعَةِ بِمُوجِبِ الْمَادَّةِ (785) لَا يَلْزَمُهُ فِي هَذِهِ أَيْضًا، سَوَاءٌ أَكَانَتْ مُرَاجَعَةُ الْحَاكِمِ مُمْكِنَةً أَمْ غَيْرَ مُمْكِنَةٍ (تَكْمِلَةُ رَدِّ الْمُحْتَارِ) .
وفی المحیط البرھانی(8/296)
’’إذا کانت الودیعۃ شیئا یخاف علیہ الفساد، وصاحب الودیعۃ غائب، فإن رفع المودع الأمر إلی القاضی حتی یبیعہ جاز وھو الأولی، وإن لم یرفع حتی فسدت،لا ضمان علیہ،لأنہ حفظ الودیعۃ علی ما أمر بہ (محیط برھانی ،کتاب الودیعۃ،الفصل الرابع،ج08،ص296،مطبوعہ مکتبہ ادارۃ القرآن)
تكملة حاشية رد المحتار  (ج 2 / ص 510)
وإن لم يكن في البلد قاض باعها وحفظ ثمنها هندية......وفي التاترخانية: غاب رب الوديعة ولا يدري أحي هو أو ميت يمسكها حتى يعلم موته ولا يتصدق بها.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

 28/10/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب