021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شرکت کےوقت نفع کاتناسب طےنہ ہوتوشرکت فاسدہوگی
73249شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

سوال:السلام علیکم!جناب مفتیان کرام کیافرماتےہیں مسئلہ ہذاکےبارےمیں

زیدنےبکراورعمروکےساتھ مل کرفروخت کرنےکی نیت سےشراکت پرپلاٹ خریدا،پلاٹ ساڑھے چودہ مرلہ 50لاکھ کاخریداگیاتھا،اس میں 28 لاکھ روپےزیدکی رقم ہے،15لاکھ روپےبکرکی رقم ہے،ساڑھے ساتھ لاکھ روپےعمروکی رقم ہے،82لاکھ روپےکا پلاٹ فروخت ہوا۔

اخراجات نکال کر31لاکھ روپےکی بچت ہوئی۔

بکرکےحصےمیں سات لاکھ کےقریب رقم آئی۔

عمروکےحصےمیں 4لاکھ کےقریب رقم آئی۔

باقی رقم 20 لاکھ زیدکےحصےمیں آئی۔

جب زیدنےرقم تقسیم کی توبکرکےحصےسےآدھی رقم کاٹ لی اورعمروکےحصےبھی نصف رقم کاٹ لی،زیدکاکہناہےکہ بکراورعمروکےحصےمیں آدھاحصہ میرابنتاہے،جبکہ پلاٹ خریدتےوقت زیدنےاس کی وضاحت نہ کی تھی،زیدکاکہناہےکہ میں نےفروخت کرنےمیں محنت بھاگ دوڑزیادہ کی ہے،وقت لگاہے،گاڑی کاخرچہ ہواہے،زیدیہ بھی کہتاہےکہ میں نےعمروکےساتھ ایک مرتبہ ماربل کاکاروباربھی کیاتھاتونصف رقم میں رکھتاتھااورنصف عمروکودیتاتھا،جبکہ عمرو کاکہناہےکہ اس وقت رقم میری تھی محنت زیدکی تھی اورمضاربت کی صورت تھی،عمروکاکہناہےکہ یہ پلاٹ والی صورت مضاربت کی نہیں ہے،اس لیےمیراحصہ پورادیاجائے،ہاں گاڑی کاخرچ وغیرہ لیےلیاجائے۔زیدکہتاہےکہ میں نےعمروکےساتھ پہلےبھی پلاٹ کی خریدوفروخت کی ہے،یعنی مشترکہ پلاٹ خریداہے،اورپھرفروخت کیاتوعمروکےحصہ منافع سےآدھامیں لیتارہاہوں،جبکہ عمروکاکہناہےکہ زیدنےکبھی بھی یہ وضاحت نہیں کی کہ میں تمہارےمنافع سےبھی آدھاحصہ رکھوں گا۔

اب زید بکراورعمروکےحصےسےبھی نصف لےچکاہے،اورعمروکےسمجھانےکےباوجودبضدہےکہ میں نصف کاحق دارہوں،آپ حضرات سےگزارش ہےکہ پلاٹ اورمضاربت والےمعاملہ کی اورزیدکےحقدارہونےکےبارےمیں قرآن وحدیث اورفقہ کی روسےجواب عنایت فرمائیں،تاکہ نزاع ختم ہو،عین نوازش ہوگی۔

تنقیح:سائل نےوضاحت کی ہےکہ شرکت کرتےوقت نفع سےمتعلق کچھ طےنہیں کیاگیاتھا۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں  جب نفع میں شرکت کی نیت سےیہ مشترکہ پلاٹ خریداگیاتویہ شرکت عقدکامعاملہ ہےاورشرعاشرکت عقد کےدرست ہونےکےلیےضروری ہےکہ شرکت کامعاہدہ کرتےوقت نفع کاتناسب آپس میں طےکیاجائے(تاکہ بعدمیں لڑائی جھگڑےکی نوبت نہ آئے)اسی طرح نفع کافیصدی طورپرطےہوناضروری ہے،شرعاباہمی رضامندی سےشرکاء کےدرمیان کوئی بھی پرسنٹیج طےکی جاسکتی ہے۔

سائل کی وضاحت کےمطابق چونکہ مذکورہ صورت میں  شرکت کرتےوقت نفع کاکوئی تناسب طےنہیں کیاگیا،لہذایہ شرکت شرعافاسدہوگی،اورشرکت فاسدہ کاحکم یہ ہےکہ نفع کوسرمایہ کےبقدرتقسیم کیاجاتاہے،لہذاموجودہ صورت میں بھی اس شرکت سےحاصل ہونےوالانفع شرکاء کےدرمیان ان کےسرمایہ کےبقدرتقسیم کیاجائےگا۔

مثلا زیدکی طرف سےلگائی گئی قم کاتناسب 56فیصدہے(*100=5650/28)تو31 لاکھ نفع میں بھی اس کاتناسب زیادہ ہوگا( 56فیصد ہوگا)یعنی تقریبا 1736000

بکرکی طرف سےلگائی گئی رقم کاتناسب 30فیصدہے(*100=3050/15)تو31لاکھ نفع میں بھی اس کاتناسب 30فیصدہوگا یعنی مکمل نفع میں سےتقریبا 930000

اسی طرح عمروکی طرف سےلگائی گئی رقم کاتناسب 14فیصدہے(*100=1450/7)تو31 لاکھ نفع میں بھی اس کاتناسب 14فصیدہوگایعنی تقریبا 434000

حوالہ جات
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" 13 / 78:
( ومنها ): أن يكون الربح معلوم القدر ،فإن كان مجهولا تفسد الشركة ؛ لأن الربح هو المعقود عليه ، وجهالته توجب فساد العقد كما في البيع والإجارة۔
"البحر الرائق" 14 / 235:
( قوله : والربح في الشركة الفاسدة بقدر المال وإن شرط الفضل ) لأن الربح فيه تابع للمال فيقدر بقدره كما أن الريع تابع للزرع في المزارعة ، والزيادة إنما تستحق بالتسمية ، وقد فسدت فبقي الاستحقاق على قدر رأس المال أفاد بقوله بقدر المال أنها شركة في الأموال فلو لم يكن من أحدهما مال وكانت فاسدة فلا شيء له من الربح ؛ ولذا قال في المحيط دفع دابته إلى رجل يؤاجرها على أن الأجر بينهما فالشركة فاسدة والأجر لصاحب الدابة وللآخر أجر مثله۔
"العناية شرح الهداية" 8 / 309:
( وكل شركة فاسدة فالربح فيهما على قدر المال ، ويبطل شرط التفاضل ) لأن الربح فيه تابع للمال فيتقدر بقدره ، كما أن الريع تابع للبذر في الزراعة ، والزيادة إنما تستحق بالتسمية ، وقد فسدت فبقي الاستحقاق على قدر رأس المال۔
"بدائع الصنائع" 13 / 142:
 ( وأما ) الشركة الفاسدة وهي التي فاتها شرط من شرائط الصحة ، فلا تفيد شيئا مما ذكرنا ؛ لأن لأحد الشريكين أن يعمله بالشركة الصحيحة ، والربح فيها على قدر المالين ؛ لأنه لا يجوز أن يكون الاستحقاق فيها بالشرط ؛ لأن الشرط لم يصح ، فألحق بالعدم ، فبقي الاستحقاق بالمال ، فيقدر بقدر المال ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

29/شوال  1442 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب