73250 | تقسیم جائیداد کے مسائل | متفرّق مسائل |
سوال
ایک مسئلہ درپیش ہے،مسئلہ یہ ہےکہ دوبھائی جن کےدرمیان بتیس سال قبل زمین تقسیم ہوئی تھی،اورتقسیم قرعہ اندازی سےہوئی تھی،پیمانہ موجودنہ ہونےکی وجہ سےرسی کےساتھ ناپ لیاتھا،اورتقسیم کرتےوقت تین گواہ بھی موجودتھے،تقسیم کرتےوقت یہ بات طےہوئی کہ اگرکسی کواپنےحصےکی زمین میں کسی بھی قسم کےنقص یاکمی نظرآئےتووہ دس سال کےاندراندراپنےنقص اورکمی کودورکرنےکامطالبہ کرے۔بصورت دیگردس سال گزرنےکےبعدکسی بھی فریق کواختیارنہ ہوگاکہ وہ نقص یاکمی کوپوراکرنےکامطالبہ کرےاورنہ یہ اختیارہوگاکہ وہ زمین کودوسرےکےساتھ تبدیل کرے۔
اب بتیس سال گزرنےکےبعد ایک بھائی نےیہ کہاہےکہ مجھےاپنی زمین میں کمی لگ رہی ہے،اورتقسیم دوبارہ کی جائے۔لیکن دوسرابھائی دوبارہ تقسیم کےلیےراضی نہیں ہے۔
بتیس سال قبل تقسیم کرتےوقت جوتین گواہ موجودتھےوہ اب بھی موجودہیں،ان تین گواہوں میں سےایک اب بھی اس بات پرگواہ ہےکہ تقسیم کرتےوقت ہم نےدس سال کی مدت بیان کی تھی(جن فریقین کودس سال کےاندراپنی زمین میں کسی بھی قسم کی نقص یاکمی نظرآئےتوان دس سال کےاندرمطالبہ کرے)لیکن ان میں سےجودوگواہ ہیں یہ کہہ رہےہیں کہ ہمیں شک ہےکہ ہم نےدس سال کی مدت بیان کی ہےیانہیں اورتقسیم کرتےوقت تحریری طورپرکچھ بھی نہیں لکھاہے۔لہذاآپ حضرات سےمودبانہ گزارش ہےکہ جتنی جلدی ہوسکے،اس کاجواب عنایت فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں چونکہ دونوں بھائیوں کی رضامندی سے قرعہ اندازی کےذریعہ تقسیم ہوئی تھی، اورتقسیم کےوقت گواہ بھی موجودتھے،دوسرابھائی اس کااقراربھی کررہاہےتوموجودہ صورت میں عرصہ بتیس سال گزرنےکےبعددوبارہ تقسیم کامطالبہ شرعادرست نہیں۔
باقی رہی بات کہ اس وقت گواہوں کےسامنے کتنی مدت کےبارےمیں طےہواتھا؟اس سےمتعلق چونکہ گواہوں میں اختلاف پایاجاتاہے،اس وجہ سےاس مدت کااعتبارنہیں کیاجائےگا،شرعایہ دیکھاجائےگاکہ تقسیم کےوقت قرعہ اندازی کےذریعہ تقسیم پردونوں بھائی راضی تھےیانہیں تھے۔
ہاں اگردوسرابھائی بھی یہ سمجھتاہےکہ اس وقت تقسیم میں واقعتاغلطی ہوگئی تھی،توپھردوسرےبھائی کی رضامندی سےدوبارہ تقسیم کی جاسکتی ہے،صرف ایک بھائی کےمطالبہ سےدوبارہ تقسیم نہیں کی جاسکتی۔
حوالہ جات
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع"14 / 495:
( فصل ) : وأما صفات القسمة فأنواع : منها أن تكون عادلة غير جائرة وهي أن تقع تعديلا للأنصباء من غير زيادة على القدر المستحق من النصيب ولا نقصان عنه ؛ لأن القسمة إفراز بعض الأنصباء ، ومبادلة البعض ، ومبنى المبادلات على المراضاة ، فإذا وقعت جائرة ؛ لم يوجد التراضي ، ولا إفراز نصيبه بكماله ؛ لبقاء الشركة في البعض فلم تجز وتعاد۔۔۔وعلى هذا إذا ظهر الغلط في القسمة المبادلة بالبينة أو بالإقرار تستأنف ؛ لأنه ظهر أنه لم يستوف حقه ، فظهر أن معنى القسمة لم يتحقق بكماله
"الدر المختار للحصفكي" 6 / 574:(ولو ظهر غبن فاحش) لا يدخل تحت التقويم (في القسمة) فإن كانت بقضاء (بطلت) اتفاقا لان تصرف القاضي مقيد بالعدل ولم يوجد (ولو وقعت بالتراضي) تبطل أيضا (في الاصح) لان شرط جوازها المعادلة ولم توجد فوجب نقضهاخلافا لتصحيح كالخلاصة۔
"رد المحتار " 26 /,40 36:( ولو اقتسما دارا وأصاب كلا طائفة فادعى أحدهما بيتا في يد الآخر أنه من نصيبه وأنكر الآخر فعليه البينة ) لأنه مدع۔۔۔۔۔۔۔ ( وتسمع دعواه ذلك ) أي ما ذكر من الغبن الفاحش ( إن لم يقر بالاستيفاء ، وإن أقر به لا ) تسمع دعوى الغلط والغبن للتناقض ، إلا إذا ادعى الغصب فتسمع دعواه ، وتمامه في الخانية۔
"حاشية رد المحتار" 6 / 574:قوله: (لا تسمع دعوى الغلط) تقدم الكلام عليه مستوفى وأنه مخالف للمتون۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی
30/شوال 1442 ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |