021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لے پالک کو ہبہ کی گئی رقم اور زیورات کی زکاة کا حکم
73322زکوة کابیانسونا،چاندی اور زیورات میں زکوة کے احکام

سوال

ایک مرحومہ نے کچھ رقم اپنی وفات سے تقریبا دس برس قبل اپنے شوہر کو دی کہ یہ فلاں)لے پالک) لڑکے کو دے دیں،مگر شوہر نے لڑکے کی کم عمری کی وجہ سے اس کو نہیں دی،یہ رقم مرحومہ کی وفات تک اس کے شوہر کے پاس ہی  رہی جوکہ بعض مواقع پر اس لڑکے کے نام پر کاروبار میں لگائی گئی،اس کاروبار سے حاصل شدہ منافع بھی اس رقم میں جمع ہوتا رہا۔

مزید یہ کہ رقم ہدیہ کرنے کچھ عرصہ بعد سونے کے کچھ زیورات بھی مرحومہ نے اسی لڑکے کو ہبہ کرنے کا اظہار کیا کہ لڑکے کے نکاح و شادی کے موقع پر ان زیورات کو استعمال کیا جائے گا،لیکن مرحومہ نے وفات کے دن تک ان زیورات کو استعمال کیا اور زکاة بھی نہیں دی،وفات کے بعد مذکورہ زیور اتارا گیا،اب سوال یہ ہے کہ :

1۔ملکیت کب متحقق ہوگی،جب ہدیہ کیا گیا یا جب لڑکے کی ملکیت میں دیا جائے گا؟

2۔زکاة کی ادائیگی کس کے ذمے ہے؟

3۔مذکورہ بالا معاملہ وصیت کے تحت آئے گا یا نہیں؟

تنقیح: سائل سے معلوم ہوا کہ لڑکا بالغ تو تھا،لیکن لاپرواہ تھا اس لیے رقم اسے نہیں دی گئی،اسی طرح سونے کے زیورات کے بارے میں مرحومہ نے کہا تھا کہ اس لڑکے کے ہیں،لیکن اس کے لاابالی پن کی وجہ سے اس کے حوالے نہیں کئے،بلکہ خود استعمال کرتی رہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ہبہ مکمل ہونے کےلیےقبضہ شرط ہے کہ جو چیز ہبہ کی جارہی ہےموہوب لہ (جسے ہبہ دیا جارہا ہے)اس پر قبضہ کرلے،لیکن اگر جسے ہبہ کیا جارہا ہو وہ نابالغ ہو یا بالغ تو ہو لیکن ابھی تک بھروسے کے لائق نہ ہو تو پھر اس کی ولی)وہ شخص کہ بچے جس کے زیر کفالت ہوں(کا قبضہ شرعا معتبر مانا گیا ہے،چونکہ مذکورہ صورت میں بچہ اس عورت کے شوہر کے زیرِ کفالت ہے،اس لیے اس کے قبضے کا اعتبار ہوگا۔

لہذا جو رقم عورت نے ہبہ کرکے اپنے شوہر کے حوالے کردی تھی اس میں تو ہبہ مکمل ہوگیا تھا اور جس دن ہبہ کیا گیا اسی وقت سے وہ رقم بچے کی ملکیت میں آگئی،البتہ زیورات کا ہبہ مکمل نہیں ہوا،کیونکہ انہیں بچے کے ولی یعنی مرحومہ کے شوہر کے قبضے میں نہیں دیا گیا،بلکہ مرحومہ نے انہیں موت تک اپنے ہی زیر استعمال رکھا،اس لیے ہبہ کی گئی رقم کی زکاة تو اس بالغ لڑکے کے ذمے لازم ہے،بشرطیکہ وہ صاحب نصاب ہو،جبکہ زیورات کی زکاة مرحومہ ہی کے ذمے لازم تھی۔

اگر انہوں نے مرتے وقت زکاة کی ادائیگی کی وصیت کی ہو تو ورثہ کے ذمےتہائی مال میں سے اس کی ادائیگی لازم ہوگی،اس سے زائد میں نہیں اور اگر وصیت نہیں کی تو پھر تہائی مال میں سے بھی ادائیگی لازم نہیں،تاہم اگر وہ اپنی مرضی سے ادا کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں،بشرطیکہ تمام ورثہ عاقل بالغ ہوں،کیونکہ نابالغ ورثہ کی اجازت شرعا معتبر نہیں۔

 چونکہ مذکورہ بالا دونوں مسائل کاتعلق ہبہ سے ہے، وصیت سے نہیں،اس لیے اس میں تہائی مال کا اعتبار نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (5/ 694):
"(وهبة من له ولاية على الطفل في الجملة) وهو كل من يعوله فدخل الأخ والعم عند عدم الأب لو في عيالهم (تتم بالعقد) لو الموهوب معلوما وكان في يده أو يد مودعه، لأن قبض الولي ينوب
عنه، والأصل أن كل عقد يتولاه الواحد يكتفى فيه بالإيجاب.
 (وإن وهب له أجنبي يتم بقبض وليه) وهو أحد أربعة: الأب، ثم وصيه، ثم الجد، ثم وصيه، وإن لم يكن في حجرهم، وعند عدمهم تتم بقبض من يعوله كعمه (وأمه وأجنبي) ولو ملتقطا (لو في حجرهما) وإلا لا، لفوات الولاية (وبقبضه لو مميزا) يعقل التحصيل (ولو مع وجود أبيه) مجتبى لأنه في النافع المحض كالبالغ، حتى لو وهب له أعمى لا نفع له وتلحقه مؤنته لم يصح قبوله أشباه".
قال ابن عابدین رحمہﷲ:" (قوله ثم وصيه) ثم الوالي ثم القاضي ووصي القاضي كما سيأتي في المأذون، ومر قبيل الوكالة في الخصومة والوصي كالأب والأم كذلك لو الصبي في عيالهما إن وهبت له أو وهب له تملك الأم القبض، وهذا إذا لم يكن للصبي أب، ولا جد، ولا وصيهما، وذكر الصدر أن عدم الأب لقبض الأم ليس بشرط، وذكر في الرجل إذا زوج ابنته الصغيرة من رجل فزوجها يملك قبض الهبة لها، ولا يجوز قبض الزوج قبل الزفاف وبعد البلوغ.
وفي التجريد: قبض الزوج يجوز إذا لم يكن الأب حيا، فلو أن الأب ووصيه والجد ووصيه غائب غيبة منقطعة جاز قبض الذي يتولاه، ولا يجوز قبض غير هؤلاء الأربعة مع وجود واحد منهم سواء كان الصغير في عياله أو لا وسواء كان ذا رحم محرم أو أجنبيا وإن لم يكن واحد من هؤلاء الأربعة جاز قبض من كان الصبي في حجره، ولم يجز قبض من لم يكن في عياله بزازية قال في البحر: والمراد بالوجود الحضور اهـ.
وفي غاية البيان: ولا تملك الأم وكل من يعول الصغير مع حضور الأب، وقال بعض مشايخنا: يجوز إذا كان في عيالهم كالزوج، وعنه احترز في المتن بقوله في الصحيح اهـ ويملك الزوج القبض لها مع حضور الأب، بخلاف الأم وكل من يعولها غير الزوج، فإنهم لا يملكونه إلا بعد موت الأب أو غيبته غيبة منقطعة في الصحيح لأن تصرف هؤلاء للضرورة لا بتفويض الأب، ومع حضور الأب لا ضرورة جوهرة.
وإذا غاب أحدهم غيبة منقطعة جاز قبض الذي يتلوه في الولاية، لأن التأخير إلى قدوم الغائب تفويت للمنفعة للصغير فتنقل الولاية إلى من يتلوه كما في الإنكاح، ولا يجوز قبض غير هؤلاء مع وجود أحدهم، ولو في عيال القابض أو رحما محرما منه كالأخ والعم والأم بدائع ملخصا، ولو قبض له من هو في عياله مع حضور الأب قيل: لا يجوز، وقيل: يجوز وبه يفتى مشتمل الأحكام والصحيح الجواز كما لو قبض الزوج، والأب حاضر خانية والفتوى على أنه يجوز استروشني.
فقد علمت أن الهداية والجوهرة على تصحيح عدم جواز قبض من يعوله مع عدم غيبة الأب، وبه جزم صاحب البدائع وقاضي خان وغيره من أصحاب الفتاوى صححوا خلافه، وكن على ذكر مما قالوا: لا يعدل عن تصحيح قاضي خان، فإنه فقيه النفس، ولا سيما وفيه نفع للصغير فتأمل عند الفتوى، وإنما أكثرت من النقول لأنها واقعة الفتوى، وبعض هذه النقول نقلتها من خط منلا علي التركماني واعتمدت في عزوها عليه فإنه ثقة ثبت  رحمه الله تعالى".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

08/ذی قعدہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب