73353 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
ایک مسٔلہ پوچھنا تھا۔ میں والد والدہ تین بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔دو بہنوں کی شادی ہو چکی ہے اور ہم چار بھائی، والد اور والدہ کے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔
میں بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، فیملی بڑھنے کی وجہ سے میں نے الگ فلیٹ خریدا جس کے لئے والد اور والدہ نے چار لاکھ دیئے۔ میں نے اسی فلیٹ میں والد اور والدہ کو چار لاکھ کا حصہ دار بنا دیا۔ جب یہ فلیٹ بیچا تو دو گنی قیمت پر فروخت ہوا، پھر میں نے ایک پورشن خریدا جس کی مالیت 80 لاکھ تھی تو میں نے اسی کے حساب سے 8 لاکھ کا جو حصہ بنا تھا والد اور والدہ کو اس میں حصہ دار بنایا یعنی دس فیصد۔
دوسرے نمبر کے بھائی نے بھی ایک فلیٹ خریدا جس میں والدہ، والد نے ساڑھے سات لاکھ دئیے۔ پھر کچھ عرصے بعد جب اس نے فلیٹ فروخت کیا تو اس کی قیمت دو گنا ہو گئی۔ بھائی نے دوسرا فلیٹ خریدا، اس میں والدہ اور والد نے پرانے پندرہ لاکھ (جو پہلے ساڑھے سات لاکھ تھے) اور پانچ لاکھ اضافی اور دئیے، مطلب اس میں والد اور والدہ کا 20 لاکھ کا حصہ ہے۔
تیسرے بھائی نے بھی فلیٹ خریدا تو اس کو بیس لاکھ دئیے، اس کے فلیٹ میں بھی والد اور والدہ کا حصہ ہے۔
اب ایک بھائی والد اور والدہ کے ساتھ رہتا ہے اور دو بہنیں شادی شدہ ہیں۔ میں نے یہ حساب اسی لیے رکھا ہے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ جب بھی وراثت تقسیم ہو اس وقت کی ویلیو کے حساب سے سب میں برابر تقسیم ہو ۔ جس بھی بھائی کے فلیٹ میں والد اور والدہ کا حصہ ہے، وہ اسی وقت کی ویلیو کے حساب سے کل وراثت میں ضم کرکے شریعت کے حساب سے تقسیم ہو تو کیا یہ ٹھیک ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جی، والدین کی وفات کے بعد میراث تقسیم کرتے وقت ان کے حصے کی جو قیمت بنے گی اس میں ان کے تمام ورثا کو حصہ دینا لازم ہوگا۔ والدین کی میراث میں شرعا بیٹے کو بیٹی کی نسبت دوگنا حصہ ملے گا۔
حوالہ جات
القرآن الکریم:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ} [النساء: 11]
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
8/ذی قعدہ/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |