021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقسیم وراثت(۹ بیٹے، ایک بیٹی اور ایک شوہرمیں تقسیم وراثت)
73325میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے والد نے میری والدہ کے نام ایک پلاٹ لیا اور تمام رقم خود والد نے ہی ادا کی، والدہ کے انتقال کے دو سال بعد والد نے وہ پلاٹ اپنے نام کرالیا، والد نے وفات سے قبل  تمام بھائیوں کی موجودگی میں پلاٹ کی فائل میرے حوالہ کی ، اب والد کی وفات کے بعد وہ پلاٹ تمام بھائیوں کے رائے سے فروخت کر رہاہوں، اس میں ورثہ کاکتنا کتنا حصہ ہوگا؟ ورثہ میں ۹ بیٹے، ایک بیٹی اور ایک شوہر شامل ہیں۔یاد رہے کہ ہماری ایک بہن کا انتقال والدہ کے بعد اور والد سے پہلے ہوا ہے ،کیا ان کا یا انکے بچوں کا بھی حصہ بنتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر یہ پلاٹ والدہ کےنام پر والد نےمالکانہ طور پر خریدا  تھا اور اپنی  زندگی میں والدہ نے اس پر مالکانہ قبضہ بھی کرلیا تھا(جیساکہ فون پر مستفتی سے پوچھنے پر بھی معلوم ہوا) تو یہ پلاٹ والدہ کے ترکہ میں تقسیم ہوگا۔

مرحومہ نےبوقت وفات اپنی ملکیت میں جو کچھ بھی جائیداد ، نقدی یا چھوٹا بڑا سامان چھوڑا ہے، وہ سب اس کا ترکہ ہےجس کی کل مالیت میں سے سب سے پہلے مرحومہ کی سنت کے مطابق تجہیز وتکفین کا خرچ ادا کیا جائے ،بشرطیکہ کسی وارث وغیرہ نے اپنی طرف سے یہ خرچ نہ کیا ہو،اس کےبعداگر اس کے ذمہ قرض وغیرہ مالی واجبات ہوں تو انہیں ادا کیا جائے،پھراگر اس نے کسی غیر وارث  یا کسی نیک کام کے لیے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ماندہ ترکہ کے ایک تہائی تک اسے پورا کیا جائے،اس کے بعد باقی بچنے والے مال  کا چوتھا حصہ یعنی پچیس فیصد شوہر کو ملے گا، اس کے بعد بقیہ مال کے انیس برابر حصے بنیں گے جن میں سے ہر ایک بیٹےکو دو دو حصے(7٫894 فیصد) اور بیٹی کو (یعنی ان کی اولاد کو شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوکر) ایک حصہ(3٫947 فیصد) ملے گا، اس کے بعدشوہر(آپ کے والد) کاحصہ ۹ برابر حصوں میں تقسیم ہوکر ہر ایک بیٹےکو ایک ایک حصہ ملے گا ،بیٹی کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۰یقعدہ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب