021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاقِ ثلاثہ کے بعد شوہرکا غیر مقلدین کے فتوی کی بنیادپردوبارہ نکاح کرکےجماع کرنا اورپھرعورت کا اس دوران دوسرانکاح کرنا اورجماع کرنا
73413طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ  

         میں نے اپنی بیوی کو سولہ سال بعد تین طلاقیں دی،عدت کے بعد اس نے ایک اوربندے سے نکاح کیا،اور کچھ دن بعد اس سے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں تحریری اورزبانی دونوں طرح سےلی،اس کا ارادہ واپس میرے ساتھ نکاح کرنےکا تھا اورمیرا بھی یہی ارادہ تھا کیونکہ ہمارے چار بچے ہیں اوربڑی بیٹی اوربڑا بیٹا ایک جسمانی بیماری میں مبتلابھی ہیں، اسی وجہ سے ہم نے شرعی حلالہ کے بعد دوبارہ نکاح کرنےکا فیصلہ کیا کیونکہ ان بچوں کو ہم دونوں کی سخت ضرورت ہے، کوئی اوران کا خیال نہیں رکھے گا،ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں لینے کے بعد عدت کے دوران میرا اوراس خاتون کا کسی بات پر فون پر جھگڑا ہوا،اس بات کا ان کے دوسرے شوہر کو جب پتہ چلا تو اس نے یہ موقع غنیمت جاناکیونکہ وہ اس کو چھوڑنا نہیں چاہتاتھا،اس خاتون نے منت سماجت کرکے بچوں کے لیے ان سے طلاق لی تھی، اس شخص کی پہلےسے دو بیویاں اورآٹھ بچے  ہیں، تو اس نے اس خاتون کو بولا کہ غیر مقلدین کے فتوے کے حساب سے ایک مجلس کی تین طلاقیں تین نہیں بلکہ ایک ہوتی ہیں، اس لیے آپ پر ایک طلاق واقع ہوئی ہے، لہذا ہم دونوں عدت کے دوران رجوع کرسکتےہیں، مفتی صاحب وہ شخص غیر مقلد نہیں ہے بلکہ حنفی ہے اورمیں اوریہ خاتون بھی حنفی ہیں مگر پھربھی غیرمقلدین سے فتوی لیکر وہ یہ بتاتاہے کہ ایک طلاق ہوئی ہے ،مذکورہ خاتون بھی اس کی ان باتوں میں آگئی اوردونوں نے عدت کے دوران رجوع کرلیا اورمزید تسلی کےلیے ایک اورحنفی نکاح خواں کو اوردوسرے گواہوں کو بلاکر﴿ جن کو ان کے پہلے نکاح اورطلاق کاکوئی علم نہیں تھا﴾نکاح بھی کرلیا اورساتھ رہنے لگے، کچھ دن بعد مجھے اس کاپتہ چلا تو میں نے اس خاتون سے رابطہ کرکے ان کو سمجھایا کہ آپ لوگوں کی تین طلاقیں ہوچکی ہیں، آپ لوگ دوبارہ نکاح نہیں کرسکتے،آپ  لوگ بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کررہے ہو، پھر اس خاتون کو احساس ہوا اورادھر اُدھر سے مزید معلومات لینے کے بعدپتہ چلاکہ یہ تو چاروں ائمہ حضرات  اورپوری امت کا اجماعی مسئلہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طاقیں تین ہی ہوتی ہیں ،تواس لیے اس خاتون نے اس شخص کو بہت بارسمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ نہیں ماناتوآخر کاریہ خاتون اس کاگھر واقع کراچی چھوڑکر پنڈی ہمارے پاس آگئی،کیونکہ میں اوربچے اس وقت پنڈی میں تھے اورپھرمیرے امی اورابو کے ساتھ پنڈی کے دو بڑے دارلافتاؤں جامعہ اسلامیہ صدر اورجامعہ تعلیم القرآن راجہ بازار سے اس مسئلہ کا فتوی لیا تو دونوں میں یہ کہاگیاتھاکہ تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور اس کے بعدشوہرثانی سےجودوسرا نکاح ہواہے وہ سرے سےہوا ہی نہیں وہ غیر شرعی تھا اوروہ دونوں غلط رہتے رہے ہیں، اس پر یہ دونوں توبہ کریں اوراگر ان تین طلاق کے بعد عدت پوری ہوگئی ہے تو یہ عورت اورشوہرِ اول باہم دوبارہ نکاح کرسکتےہیں تومفتی صاحب ہم نے پنڈی میں دوبارہ نکاح کرلیا ، کیونکہ شوہرثانی کی تین طلاقوں کے بعد عدت پوی ہوچکی تھی مگرکچھ دن بعد ہمیں کہیں سےیہ  پتہ چلاکہ یہ خاتون اوروہ شخص دوسری بارجو غیر شرعی نکاح  کرکے ساتھ رہ رہے تھے اس میں آپس میں یہ ملےبھی تھے،لہذاآخری دفعہ ملنے کے  بعد جب تین حیض کی عدت گزرجاتی توپھر ہم دونوں نکاح کرسکتے تھے،جبکہ ہم نے تو پہلے ہی  سےنکاح کرلیا تھا، اس لیے ہم دونون بہت پریشان ہوئےاور پورے خاندان کو بھی اس نکاح کا پتہ چلا،مگرمفتی صاحب ہم گنا ہ کی زندگی نہیں گزانا چاہتےہیں، پہلے ہی بچے بیمارہیں،اب ہم  ایک گھرمیں تو رہتے ہیں مگر ملتے نہیں ، اب ہم کراچی شفٹ ہوگئے ہیں  اورگھر میں صرف بچے اوریہ خاتون ہیں، اب چند دن پہلے اس خاتون کے اس شخص سے دوسری بار غیر شرعی نکاح کے بعد  جو آخری دفعہ ملاپ ہوا تھا اس کے  بعد بھی تین حیض گزرگئے ہیں،لہذ اب ہم تجدیدِنکاح کرناچاہتے ہیں مگر پنڈی سے فتوی ملنے کے بعدجوہم دونوں نےعدت میں نکاح کیاتھا وراس کے بعد ساتھ رہےتھے اورجماع کرتے رہے تھے اس کا کیا بنے گا؟ اس نکاح کےبعدجب ہم آخری بارملےتھے اس  کے بعدابھی تین حیض نہیں گزرےتوکیا اب ہم  تجدیدنکاح کرسکتے ہیں؟یا ہمیں تین حیض گزرنے کا انتظارکرنا پڑےگا؟ مفتی صاحب ہم تجدیدِنکاح بھی چاہتے ہیں اورگناہ سے بھی بچنا چاہیے ہیں لہذا آپ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ ہم دوبارہ اس تجدیدِ نکاح کے لیے کونسی مدت  کا اعتبارکریں؟ تفصیل سے بتائیں،ہم سخت پریشان ہیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسئولہ صورت مٰیں عدت تو حقیقت میں شوہرِ ثانی کی طلاق ثلاثہ کے بعد ہی سے شروع ہوگئی تھی لیکن اگر غیر مقلدین کے فتویٰ سے شوہر یہ سمجھا ہو کہ بیوی میرے لئے حلال ہے اور میں اس کے ساتھ ازدواجی زندگی بسر کرسکتا ہوں اور اس بنیاد پر وہ بیوی کو اپنے گھر لے آیا، اور دونوں ساتھ رہنے لگے ، پھر لوگوں کے توجہ دلانے پر دونوں کو تنبتہ ہوا اور مفارقت اختیار کر لی تو عدت کے بارے میں اسے وطی بالشبہ کہا جا سکتا ہے (اگرچہ حقیقت میں تو یہ زنا ہی ہے )تو مفارقت کے بعد مستقل عدت لازم ہوگی، البتہ دونوں عدتوں میں تداخل ہوجائے گا ، مفارقت کے بعد جو حیض آئے گااس کا شمار دونوں عدتوں میں ہوگا مثلاً وطی بالشبہہ سے قبل اگر ایک حیض آیا ہو تو مفارقت کے بعد تین حیض اور گذارنا ہوں گے اور اگر اسقرار حمل ہوجائے تو وضع حمل سے دونوں عدتیں پوری ہوجائیں گی ۔اس  صورت میں چونکہ شوہراول یعنی آپ کا نکاح معتدة الغیر کے ساتھ ہواہے جوکہ نکاح ِباطل ہے لہذا اس کے بعد کی جانے والی وطی  زناتھا اس پر آپ  اوربیوی صدقِ دل سے توبہ اوراستغفارکریں تاہم آپ دونوں کی اس وطی سے کوئی نیاعدت عورت  پرواجب نہیں ہوگا،کیونکہ یہ خالص زناتھا جوموجبِ عدت نہیں،البتہ اب چونکہ پہلی والی عدت مکمل ہوچکی ہے، لہذا نیا نکاح کرنا پڑےگا،اس لیے کہ پہلانکاح غیر کی عدت میں ہونے کی وجہ سے نہیں ہواتھا۔

اور اگر شوہِرثانی طلاقِ ثلاثہ کےبعدغیر مقلدین کے فتویٰ کےباوجودیہ سمجھتا رہاہو کہ بیوی میرے لیےبالکل حرام  ہے مگر خواہش نفسانی سے مغلوب ہو کر بیوی کو وہ اپنے گھر لے آیا تھااور دکھاوے کے لئے غیر مقلدین سے فتویٰ حاصل کر لیاتھا تو اس صورت میں عدت کے زمانہ میں شوہرِثانی سےجوصحبت ہوئی ہے اس کے زناہونے میں کوئی شک نہیں اور اس سے عدت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور دوسری عدت لازم نہ ہوگی ،بلکہ وہی پہلی والی عدت جو شوہرِ ثانی کی طلاق ثلاثة کے بعد شروع ہوئی تھی وہی مکمل کرناپڑے گی۔اس  صورت میں یہ دیکھنا پڑے گاکہ پہلےشوہریعنی آپ  کا نکاح  شوہرثانی کی طلاقِ ثلاثہ کے بعد شروع ہونے والی عدت کے بعد ہوا ہے یا پہلے، اگر بعد میں ہوا ہوتو آپ کا نکاح بھی صحیح ہوا اورطی بھی جائز تھی ،کسی پریشانی کی ضرورت نہیں ،اورنہ ہی جدید نکاح کی ضرورت ہے،لیکن اگرآپ  کا یہ نکاح شوہرثانی کی طلاق ثلاثہ کے بعد شروع ہونے والی عدت کے اندرہواہے توپھر اس میں  وہی سابقہ تفصیل ہوگی  کہ یہ  چونکہ یہ معتدة الغیر سے نکاح تھاجو جائز نہیں تھا،باطل تھا،اس لیے یہ نکاح بالکل منعقد نہیں ہواتھا لہذا اس کے بعد آپ نےجو وطی کی تھی وہ زناتھی، اس پر آپ دونوں میاں بیوی صدق ِدل سے توبہ و استغفارکریں البتہ چونکہ یہ زناتھی اس لئے اس سے کوئی نیاعدت واجب نہیں ہوا،کیونکہ زناموجبِ عدت نہیں،البتہ اب چونکہ شوہرِ ثانی کی طلاق ثلاثة کے بعد شروع ہونے والی عدت گذرچکی ہے، لہذا شرعی طریقے سےآپ دونوں دوبارہ   نکاح  کرسکتےہیں،تین حیضوں تک انتظار کی ضرورت نہیں،نکاح اس لیے کرناپڑےگاکیونکہ پہلانکاح غیر کی عدت میں ہونے کی وجہ سےنہیں ہوا تھا۔

واضح رہے کہ تین طلاقوں کے بعد بیوی  اپنے شوہر پر بالکل حرام ہوجاتی ہے ،شرعی حلالہ کے بغیر حلال نہیں ہوسکتی اس سلسلہ میں غیر مقلدوں کا فتویٰ قرآن و حدیث اجماع صحابہ اور اقوال مجتہدین کے بالکل خلاف ہے ان کے فتویٰ کی وجہ سے حرام شدہ عورت حلال نہیں ہوسکتی۔

حوالہ جات
وفی الدر المختار مع الشامیة:
(واذا وطئت المعتدۃ بشبھۃ) ولو من المطلق (وجبت عدۃاخری) لتجدد السبب (وتداخلتا والمرئی ) من الحیض (منھما و) علیھا ان (تتم) العدۃ(الثانیۃ ) ان تمت الاولیٰ وکذا لو بالاشھر… ولو حبلت فعدتھا وضع الحمل الا معتدۃ الو فاۃ فلا تتغیر بالحمل کما مر وصححہ‘ البدائع (وفی الشامیة) (قولہ بشبھۃ) متعلق بقولہ وطئت وذلک کالمو طوئۃ للزوج فی العدۃ بعد الثلاث بنکاح وکذآ بدون ہ اذا قال ظننت انھا تحل لی او بعد ما ابا نھا بالفاظ الکنایۃ وتما مہ فی الفتح ومفادہ انہ لووطئھا بعد الثلاث فی العدۃ بلا نکاح عالماً بحرمتھا لا تجب عدۃاخری لا نہ زنا وفی البزازیۃ طلقھا ثلاثا ووطئھا فی العدۃ فی العلم بالحرمۃ لا تستانف العدۃ بثلاث حیض ویرجمان اذا علما بالحرمۃ وو جد شرائط الاحصان ولو کان منکرا طلاقھا لا تنقضی العدۃ ولو ادعی الشبھۃ تستقبل… الخ(الدرالمختار والشامی ص ۸۳۷، ص ۸۳۸ ج۲ باب العدۃ) (فتح القدیر مع العنایۃ ج۴ ص ۳۱۱ باب العدۃ)
وفی الھندیة:
واما المطلقۃ ثلاثاً اذا جا معھا زوجھا فی العدۃ مع علمہ انھا حرام علیہ ومع اقرارہ بالحرمۃ لا تستأنف العدۃ ولکن یرجم الزوج والمرأۃ الخ (ج۲ ص ۱۶۱)
وفی بہشتی زیور :
 مسئلہ:۔ کسی نے اپنی عورت کو طلاق بائن دی یا تین طلاقیں دے دیں پھر عدت کے اندر دھوکے میں اس سے صحبت کر لی تو اب اس دھوکا کی صحبت کی وجہ سے ایک عدت اور واجب ہوگئی ، اب تین حیض اور پورے کر ے جب تین حیض اور گذر جائیں گے تو دونوں عدتیں ختم ہوجاویں گی (بہشتی زیور ص ۸۴ چوتھا حصہ عدت کا بیان )(فتاویٰ دارالعلوم مدلل و مکمل ج۱۰ ص۳۴۶)
وفی رد المحتار:
أما نکاح منکوحۃ الغیر و معتدتہ فالدخول فیہ لایوجب العدۃ إن علم أنہا للغیر لأنہ لم یقل أحد بجوازہ فلم ینعقد أصلا۔ (الشامیةط کراچی ۳/۱۳۲، زکریا ط دیوبند ۴/۲۷۴)
وفیھاایضاً:
أما نکاح منکوحۃ الغیر و معتدتہ فالدخول فیہ لا یوجب العدۃ إن علم أنہا للغیر لأنہ لم یقل أحد بجوازہ فلم ینعقد أصلا، قال فعلی ہذا یفرق بین فاسدہ و باطلہ فی العدۃ، ولہذا یجب الحد مع العلم بالحرمۃ لأنہ زنی۔ (الشامیة، کتاب الطلاق، باب العدۃ، مطلب: فی النکاح الفاسد والباطل زکریا ۵/۱۹۷، ۴/۲۷۴، کراچی ۳/۱۳۲، ۳/۵۱۶، البحر الرائق کوئٹہ۴/۲۴۴، زکریا دیوبند ۴/۲۴۲)
وفیھاایضاً:
لا اعتبار لماء الزانی ولذا لو زنت امرأۃ رجل لم تحرم علیہ وجازلہ وطئہا عقب الزنا۔ (الشامیة ، کتاب النکاح زکریا دیوبند ۴/۱۰۹، کراچی ۳/۳۴، البحر الرائق / کتاب النکاح، فصل فی المحرمات زکریا ۳/۱۷۰، کوئٹہ ۳/۹۶)
وفی رد المحتار:
إن وطئ المطلقۃ بالثلاث أو علی مال لم تتمحض للفعل بل ہی شبہۃ عقد أیضا فلا تناقض أی لأن ثبوت النسب لوجود شبہۃ العقد۔ (الشامیة زکریا ۵/۲۳۲، کراچی ۳/۵۴۱)
وفی سنن ابن ماجة (ج 2 / ص 152)باب من طلق ثلاثا في مجلس واحد 2024
حدثنا محمد بن رمح . أنبأنا الليث بن سعد ، عن إسحاق بن أبى فروة ،عن أبى الزناد ، عن عامر الشعبى  قال : قلت لفاطمة بنت قيس :حدثينى عن طلاقك . قالت : طلقني زوجي ثلاثا ، وهو خارج إلى اليمن فأجاز ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم .
وسنن البيهقي الكبرى - (ج 7 / ص 339)
أخبرنا أبو سعد أحمد بن محمد الماليني أنا أبو أحمد عبد الله بن عدي الحافظ نا محمد بن عبد الوهاب بن هشام نا علي بن سلمة اللبقي ثنا أبو أسامة عن الأعمش قال كان بالكوفة شيخ يقول سمعت علي بن أبي طالب رضي الله عنه يقول إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا في مجلس واحد فإنه يرد إلى واحدة والناس عنقا وآحادا إذ ذاك يأتونه ويسمعون منه قال فأتيته فقرعت عليه الباب فخرج إلي شيخ فقلت له كيف سمعت علي بن أبي طالب رضي الله عنه يقول فيمن طلق امرأته ثلاثا في مجلس واحد قال سمعت علي بن أبي طالب رضي الله عنه يقول إذا طلق رجل امرأته ثلاثا في مجلس واحد فإنه يرد إلى واحدة قال فقلت له أين سمعت هذا من علي رضي الله عنه قال أخرج إليك كتابا فأخرج فإذا فيه بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما سمعت علي بن أبي طالب رضي الله عنه يقول إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا في مجلس واحد فقد بانت منه ولا تحل له حتى تنكح زوجا غيره قال قلت ويحك هذا غير الذي تقول قال الصحيح هو هذا ولكن هؤلاء أرادوني على ذلك.
وفی صحيح البخاري(2/791، ط:قدیمی)
عن عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول».
وفی عمدة القاری (2/336، ط؛ رشیدیه
مطابقته  للترجمة في قوله: طلق امراته ثلاثاً فإنه ظاهر في كونها مجموعة.
وفی تفسير القرطبي (3 / 128
تَرْجَمَ الْبُخَارِيُّ عَلَى هَذِهِ الْآيَةِ" بَابُ مَنْ أَجَازَ الطَّلَاقَ الثَّلَاثَ بِقَوْلِهِ تَعَالَى: الطَّلاقُ مَرَّتانِ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ" وَهَذَا إِشَارَةٌ منه إلى أن هذاالتعديد إنما هو فسخه لَهُمْ، فَمَنْ ضَيَّقَ عَلَى نَفْسِهِ لَزِمَهُ. قَالَ عُلَمَاؤُنَا: وَاتَّفَقَ أَئِمَّةُ الْفَتْوَى عَلَى لُزُومِ إِيقَاعِ الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ فِي كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ جُمْهُورِ السَّلَفِ.
وفی أحكام القرآن للجصاص (1 /527 ، ط: قدیمی
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَوْله تَعَالَى: {الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} الْآيَةَ، يَدُلُّ عَلَى وُقُوعِ الثَّلَاثِ مَعًا مَعَ كَوْنِهِ مَنْهِيًّا عَنْهَا.
وفی رد المحتار - (ج 10 / ص 448)
وقد ثبت النقل عن أكثرهم صريحا بإيقاع الثلاث ولم يظهر لهم مخالف - { فماذا بعد الحق إلا الضلال}  وعن هذا قلنا لو حكم حاكم بأنها واحدة لم ينفذ حكمه لأنه لا يسوغ الاجتهاد فيه فهو خلاف لا اختلاف.
وفی الفتاوى الهندية - (ج 10 / ص 196)
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز .أما الإنزال فليس بشرط للإحلال.
وفی أحكام القرآن للجصاص ج: 5  ص: 415
قوله تعالى: {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ} منتظم لمعان: منها تحريمها على المطلق ثلاثا حتى تنكح زوجا غيره، مفيد في شرط ارتفاع التحريم الواقع بالطلاق الثلاث العقد والوطء جميعا; لأن النكاح هو الوطء في الحقيقة، وذكر الزوج يفيد العقد، وهذا من الإيجاز واقتصار على الكناية المفهمة المغنية عن التصريح. وقد وردت عن النبي صلى الله عليه وسلم أخبار مستفيضة في أنها لا تحل للأول حتى يطأها الثاني، منها حديث الزهري عن عروة عن عائشة: أن رفاعة القرظي طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير، فجاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا نبي الله إنها كانت تحت رفاعة فطلقها آخر ثلاث تطليقات فتزوجت بعده عبد الرحمن بن الزبير وإنه يا رسول الله ما معه إلا مثل هدبة الثوب فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: "لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك".

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

  11/11/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب