74313 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ کےمتفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
مطلقہ عورت دعوی کرتی ہے کہ میں نے مشقت برداشت کرکے اس کی گھرکی حفاظت کی ہے لہذا اب جتنی جائیداد ہیں وہ سب میرے بچوں کے نام کردو۔جبکہ شوہرزندہ ہیں تو کیااس صورت میں جائیداد کو بچوں کے نام کرناضروری ہےیانہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
زندگی میں انسان اپنے مال کا خود مالک ہوتاہے اس کی اولاد کا اس میں کوئی حق نہیں ہوتا،لہذا اولاد خود یا ان کےلیے کوئی اورمثلاً ماں والدسےمیراث کا مطالبہ نہیں کرسکتی ، کیونکہ میراث موت کےبعد تقسیم ہوتی ہے نہ کہ زندگی میں،ہاں اگر والداپنی زندگی میں اپنی مرضی سے بغیر کسی جبرواکراہ کے اولاد کوکچھ دینا چاہیں تو یہ بھی جائز ہے مگرزندگی میں اولاد کو کچھ دیناوراثت نہیں بلکہ عطیہ ہےاوراولاد کو عطیہ دینے کاشرعی اصول یہ ہے کہ بیٹے اور بیٹی میں تفریق نہ کی جائےاورسب کو برابر سرابردیاجائے، ایسا کرنا جائز نہیں کہ بعضوں کو دے اوردیگر کو محروم کرے۔اورجس کودے الگ کرکے باقاعدہ قبضہ کراکے دے۔
حوالہ جات
في بدائع الصنائع، دارالكتب العلمية (۶/۱۲۷)
وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل:۹۰] . (وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.
وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي - عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لاحق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة.
وفی المبسوط للسرخسي ۱۲؍۶۵
شرط القبض منصوص علیہ في الهبۃ فیراعي وجودہ علی أکمل الجهات التي تمکن.
وفی المنصف لابن أبي شیبۃ ۱۰؍۵۲۰ رقم: ۳۸۹۵:
عن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: ما بال أحدکم ینحل ولدہ نحلاً لا یحوزها ولا یقسمُہا ویقول: إن متُّ فهولہ، وإن مات رجعتْ إلي وأیم اللّٰہ لا ینحل أحدکم ولدہ نحلاً لا یحوزها ولا یقسمہا، فیموت إلا جعلتها میراثاً لورثتہ.
۔سید حکیم شاہ
دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی پاکستان
27/ ربیع الاول 1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |