021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث میں اپنا حصہ چھوڑنے کے بعد مطالبہ کرنا
74579میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال یہ ہے کہ ہم کُل آٹھ بہن  بھائی ہیں جن میں سے سات بہنیں اور ایک بھائی ہے۔ میرے والد مرحوم نے کافی جائیداد چھوڑی تھی۔ گھر کی تمام ذمہ داری ہمارے بھائی پر تھی، اس لیے جائیداد کے تمام کاغذات وغیرہ ان کی ذمہ داری میں آگئے۔ ابھی جائیداد کی تقسیم نہیں ہوئی تھی کہ ہم بہنوں نے سوچا کہ ہم اپنا حصہ چھوڑ دیں، اس لیے کہ کہیں سسرال والے بھائی سے اپنا حصہ لینے پر مجبور نہ کریں جس سے بھائی کو نقصان یا پریشانی ہو، اور ہمارے اس اقدام کی وجہ سے بھائی بھی خوش ہوگااور ہمارا خیال رکھے گا۔ میں چونکہ سب بہن بھائیوں میں  بڑی ہوں اس وجہ سے سب بہنیں میری بات پر راضی ہوگئیں اور ہم نے جائیداد کی حوالگی کے کاغذات پر دستخط کردیے۔جب یہ سارے معاملات ہورہے تھے اس وقت دو بہنوں کی شادی ابھی باقی تھی۔ کاغذات پر دستخط کے بعد بھائی کا ہم سے رویہ ہی بدل گیا، جو بہنیں غیر شادی شدہ تھیں ان کی شادی کی ذمہ داری کا احساس بھی نہ رہا، چناچہ ان کی شادی کا خرچہ میں نے اپنی طرف سے اٹھایا اور اس کی وجہ سے قرض بھی لینا پڑا۔ دوسری بہنوں کا یہ حال ہےکہ وہ فاقہ کشی کررہی ہیں اور حالات پسماندہ ہیں، ہمارا بھائی بھی ہمارا خیال نہیں کرتا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ ہم بہنوں نے جو اپنا حصہ محبت اور غیرت کے نام پر بھائی کو دے دیا تھا، اس کو واپس لینے کا مطالبہ کرسکتی ہیں یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی وارث کا بلا عوض اپنا میراث کا حصہ چھوڑنا شرعاً معتبر نہیں ہے۔ اگر بہنوں نے کسی عوض کے بغیر ترکہ میں سے اپنا حصہ چھوڑا ہے، تو وہ اپنا  حصہ لینے کا مطالبہ کرسکتی ہیں۔

حوالہ جات
قال اللہ تعالی: يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْف. (سورۃ النساء: 11)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمۃ اللہ: والحاصل أنها(شرکۃ الملک) نوعان جبرية واختيارية فأشار إلى الجبرية بالإرث. (البحر الرائق: 5/180)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمۃ اللہ: (ولو أخرجت الورثة أحدهم عن عرض، أو عقار بمال، أو عن ذهب بفضة، أو على العكس صح قل أو كثر) حملا على المبادلة لا إبراء؛ إذ هو عن الأعيان باطل كذا أطلق الشارحون هنا. (البحر الرائق: 7/260)

محمد ابراہیم شیخا

دار الافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

19/ربیع الثانی1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد ابراہیم شیخا بن محمد فاروق شیخا

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب