021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بالغ ورثاء کا نابالغ کا حصہ بیچنے کا حکم
74656خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میرے بڑے بھائی شیرغلام کا انتقال ہوا، ان کے پاس ایک نو مرلے کا پلاٹ تھا، ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، میں نے ان کی بیوہ ، بڑے بیٹے شفیق الرحمن اور دوسرے بیٹے آصف الرحمان کی موجودگی میں پلاٹ خریدا، ان تینوں حضرات کے اسٹامپ پیپر پر دستخط موجود ہیں، دوبیٹیاں بھی اس وقت بالغ تھیں، البتہ ان کے دستخط نہیں ہوئے، تیسرا بیٹا اس وقت نابالغ تھا۔ باہمی رضامندی سے یہ خریدوفروخت ہوئی اور انہوں نے پلاٹ کی قیمت بھی وصول کر لی،اس طرح تقریباً بایئس سال کا عرصہ گزر گیا، اس دوران کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا، چھوٹا بیٹا جب بالغ ہوا تو دس سال تک اس نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا، بلکہ جب اس کے بڑے بھائی نے زبردستی خریداری کا دعوی کیا تو اس نے اپنے چچا زاد بھائی عامر ذیشان کے سامنے اس بات کا اقرار کیا کہ ہمارے بھائی اس بارے میں غلط ہیں، ہم لکھ کر دیں گے کہ یہ پلاٹ آپ کا یعنی چچا کا ہے، اس تمام معاملے کے گواہ موجود ہیں اور دونوں گواہ گواہی پر بھی رضامند ہیں، اس تمام صورتِ حال کے پیشِ نظر درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

  1. مدعی اب زبردستی کا دعوی کر رہا ہے کہ یہ پلاٹ زبردستی لیا گیا ہے، لیکن جب اس سے کوئی ثبوت مانگا جاتا ہے تو اس کے پاس اس پر کوئی واضح ثبوت نہیں، کیا اس کا یہ دعوی قبول ہو گا؟
  2. کیا یہ بیع مکمل طور پر منعقد ہوئی تھی یا نہیں؟بالغ اور نابالغ کے حق میں یہ بیع جائز، موقوف یا باطل تھی؟
  3. بالغ ہونے کے بعد اور زمین کی ملکیت میں تصرف اور طویل عرصہ تک ان کی اس معاملہ میں خاموشی کے بعد کیا یہ دعوی درست ہے یا نہیں؟
  4. پلاٹ خریدنے کے معاملے پر مدعی نے خود ایک مشتری کو یہ بات کہی کہ یہ پلاٹ میرے چچا کا ہے، ان سے خریدوفروخت کا معاملہ کریں اور اس بات پر گواہ بھی موجود ہیں، کیا یہ بات کہنے کے بعد بھی اس کا دعوی قبول ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1اور4: سوال میں ذکرکردہ تفصیل کے مطابق جب آپ کے دو بھتیجوں اور بیوہ نے باہمی رضامندی سے یہ پلاٹ بیچا تھااوران سب حضرات کے خریداری کے معاہدے پر دستخط اور اس معاہدے پر گواہ بھی موجود ہیں، جبکہ مدعی کے پاس زبردستی خریداری کے دعوی پرکوئیگواہنہیں ہے، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے، لہذا بغیر کسی ثبوت کے مدعی کا زبردستی خریدوفروخت کا دعوی کرنا درج ذیل دو وجہ سے درست نہیں۔

پہلی وجہ: اکراہ اور دھمکی وغیرہ دے کر کی گئی خریدوفروخت میں فروخت کنندہ کو اکراہ زائل ہونے کے بعد خریدوفروخت کا معاملہ فسخ کرنے کا اختیار ملتا ہے، لیکن اگر فروخت کنندہ اکراہ کی حالت ختم ہونے کے بعد معاملے کو فسخ کرنے کی بجائے اپنی مرضی سے چیز کی قیمت وصول کر لے تو وہ خریدوفروخت درست اور نافذ ہو جاتی ہے اور مذکورہ صورت میں چونکہ اس نے اپنی خوشی سے پلاٹ کے پیسے لے لیے تھے، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے، اسی لیے وہ اتنا عرصہ خاموش رہاہے۔

دوسری وجہ: سوال نمبر4 کے تحت ذکر کی گئی عبارت میں مدعی کا یہ کہنا کہ یہ پلاٹ میرے چچا کا ہے دراصل چچا کی ملکیت کا اقرار کرنا ہے اور فقہائے رحمہم اللہ نے یہ اصول لکھا ہے کہ "المرء يؤخذ بإقرره" يعنی آدمی سے اس کے اقرار کی بنیاد پر مقربہ (جس چیز کا اس نے اقرار کیا) کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے، یہ اقرار اس کے دعوی کے متناقض (مخالف) ہے اور مدعی کی گفتگو میں تناقض ثابت ہونے کی صورت میں دعوی درست نہیں ہوتا، لہذا اگر آپ کے پاس مدعی کے اس اقرار پر گواہ موجود ہیں تو آپ عدالت يا پنچائت میں گواہ پیش کرکے اپنے حق میں فیصلہ کروا سکتے ہیں۔

2۔ صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً فریقین کی باہمی رضامندی سے مذکورہ پلاٹ خریدا گیا تھا تو اس صورت میں خریداری کے معاہدہ پر دستخط کرنے والے حضرات کے حصہ میں تو خریدوفروخت درست اور نافذ ہو گئی، بالغ دو بیٹیوں نے بھی اگر اس خریدوفروخت پر صراحتاً یا دلالتاً رضامندی کا اظہار کیا تھا تومذکورہ وراثتی پلاٹ میں سے ان کے شرعی حصہ میں بھی خریدوفروخت درست ہوئی ہے، البتہ نابالغ بچے کے حصہ میں خریدوفروخت درست نہیں ہوئی، کیونکہ شریعت نے یتیم بچوں کے مال کی ولایت اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری صرف باپ ، دادا یا ان کے وصی کو دی ہے اور اگر ان میں سے کوئی نہ ہو تو پھر قاضی یا حاکم اس کے مال کا ولی شمار ہوتاہے، نیز بچے کی زمین بیچنے کا اختیار ان کو بھی بٕعض مخصوص صورتوں میں حاصل ہے، جن میں بچے کی ضرورت اور مصلحت پیشِ نظر ہو،لہذا عام حالات میں بچے کی زمین بیچنے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں۔

لہذا اس صورتِ حال کے پیشِ نظر یتیم بچے کے شرعی حصے کے برابر یہ فروختگی منعقد نہیں ہوئی اور اس کے بالغ ہونے کے بعد بھی اس کے حصے کی باہمی رضامندی سے باقاعدہ نئے سرے سے خریدوفروخت نہیں کی گئی، اس لیے اس کا حصہ ابھی تک اس کی ملکیت ہے اور وہ شرعاً اپنے حصہ کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے، لہذا اگر وہ اپنے حصے کا مطالبہ کرے تو آپ پر لازم ہے کہ اس کا حصہ اس کو واپس کرکے اس کے حصہ کی زمین کے بقدر ادا کی گئی رقم (یہ رقم واپس کرنے میں موجودہ قیمت کا اعتبار نہیں ہو گا، بلکہ پلاٹ پر قبضہ کرتے وقت جس حساب سے یہ قیمت ادا کی گئی تھی اسی حساب سے اب واپس کی جائے گی۔) واپس لے لیں، یا یہ کہ باہمی رضامندی سے کسی بھی قیمت پر اس کا حصہ خرید لیں تو پھر آپ اس پلاٹ کے مکمل طور پر مالک بن جائیں گے۔

3۔ یتیم بچے کے بالغ ہونے کے بعد مذکورہ خریدوفروخت پر اس کے صرف خاموش رہنے سے اس کے حصے میں خریدوفروخت منعقد اور نافذ نہیں ہو گی، کیونکہ اجازت یا خاموشی یعنی دلالتاً رضامندی موقوف بیع کے انعقاد اور نفاذ کے لیے معتبر ہو سکتی ہے، جبکہ مذکورہ صورت میں خریدفروخت بالکل نہیں ہوئی تھی، نیزبلوغت کے بعد اس لڑکے کا اپنے چچا کے سامنے یہ اقرار کرنے کہ" ہمارے بھائی اس بارے میں غلط ہیں، ہم لکھ کر دیں گے کہ یہ پلاٹ آپ کا یعنی چچا کا ہے، " سے حکم میں فرق نہیں پڑے گا، یہ درحقیقت اس نے اپنی لاعلمی کی وجہ سے کہا ہے، کیونکہ اس کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ میرے حصے میں خریدوفروخت منعقد نہیں ہوئی، اس لیے شرعاً اس بات کا بھی اعتبار نہیں، لہذا اس کے حصے میں ابھی تک خریدوفروخت کا معاملہ نہیں ہوا ، بلکہ بلوغت کے بعد باہمی رضامندی سے باقاعدہ خریدوفروخت کا معاملہ کرنا ضروری ہے، جس کی تفصیل سوال نمبر2 کے جواب میں گزر چکی ہے۔

حوالہ جات
سنن الدارقطني (5/ 390) مؤسسة الرسالة، بيروت:
عن عمر , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:  «البينة على المدعي , واليمين على المدعى عليه»
مجلة الأحكام العدلية (ص: 360) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
المادة (1769) إذا أظهر الطرف الراجح العجز عن البينة تطلب من الطرف المرجوح فإن أثبت فيها وإلا يحلف.
       الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 130) دار الفكر-بيروت:
أن الإكراه الملجئ، وغير الملجئ يعدمان الرضا، والرضا شرط لصحة هذه العقود وكذا لصحة الإقرار فلذا صار له حق الفسخ والإمضاء ثم إن تلك العقود نافذة عندنا (و) حينئذ (يملكه المشتري إن قبض فيصح إعتاقه) وكذا كل تصرف لا يمكن نقضه (ولزمه قيمته) وقت الإعتاق ولو معسرا، زاهدي لإتلافه بعقد فاسد.
 (فإن قبض ثمنه أو سلم) المبيع (طوعا) قيد للمذكورين (نفذ) يعني لزم لما مر أن عقود المكره نافذة عندنا، والمعلق على الرضا والإجازة لزومه لإنفاذه إذ اللزوم أمر وراء النفاذ كما حققه ابن الكمال.
المبسوط للسرخسي (12/ 214)باب الوكالة في السلم دار المعرفة – بيروت:
كذلك الوكيل بالبيع لأن كل واحد منهما أمر بما هو من صنيع التجار وكذلك الأب والوصي لا يملكان بيع مال اليتيم بغبن فاحش لهذا المعنى۔
مجلة الأحكام العدلية (ص: 311) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
المادة (1587) يلزم المرء بإقراره بموجب المادة التاسعة والسبعين , ولكن إذا كذب بحكم الحاكم فلا يبقى لإقراره حكم , فعليه لو ظهر مستحق لشيء في يد آخر قد اشتراه , وادعى المستحق ذلك الشيء ولدى المحاكمة قال ذلك الآخر: إن هذا المال هو لفلان , وقد باعني إياه. إلا أن المستحق أثبت دعواه وحكم الحاكم له. فللمشتري الرجوع على البائع , ويسترد ثمن المبيع منه , وإن كان قد أقر حين المحاكمة بأن ذلك الشيء مال البائع , وأنكر دعوة المستحق ;لأن إقراره قد كذب بحكم الحاكم , ولم يبق له حكم فلا يكون مانعا من الرجوع.
المادة (1588) لا يصح الرجوع عن الإقرار في حقوق العباد , فعليه لو قال أحد: إنني مدين لفلان بكذا درهما فيلزم بإقراره , ولا يعتبر قوله بعد ذلك: إنني رجعت عن إقراري.
دررالحكام شرح مجلة الأحكام لعلي حيدر(ج:4ص:207)، دار الجيل، بيروت:
لو ادعى أحد على آخر قائلا: قد أديت بأمرك لفلان كذا مبلغا من مالي قضاء لدينك حتى أثبت أقررت بأن المبلغ المذكور هو في ذمتك له من الجهة المذكورة وأنكر المدعى عليه فللمدعي أن يقيم البينة لإثبات الإقرار المذكور۔
مجلة الأحكام العدلية (ص: 329) فصل في التاقض:نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
المادة (1647) التناقض يكون مانعا لدعوى الملك مثلا إذا استشرى أحد مالا أي أراد شراءه ثم ادعى أن ذلك المال كان ملكه قبل الاستشراء لا تسمع دعواه , وكذلك لو قال
 
ليس لي حق عند فلان مطلقا ثم ادعى عليه شيئا لا تسمع دعواه , وكذلك لو ادعى أحد على آخر بقوله كنت أعطيتك كذا مقدارا من الدراهم على أن تعطيها إلى فلان فلم تعطها له وبقيت في يدك فأحضرها لي وأنكر المدعى عليه ذلك وبعد أن أقام المدعي البينة رجع المدعى عليه وأراد دفع الدعوى بقوله نعم كنت أعطيتني تلك الدراهم إلا أنني أديتها له فلا يسمع دفعه , وكذلك لو ادعى أحد الحانوت الذي هو في يد غيره بأنه ملكه وأجاب ذو اليد بقوله: نعم كان ملكك ولكن بعتني إياه في التاريخ الفلاني وأنكر المدعي ذلك بقوله لم يجر بيننا بيع ولا شراء قط وبعد أن أثبت ذو اليد دعواه رجع المدعي فادعى قائلا. نعم كنت بعت لك ذلك الحانوت في ذلك التاريخ لكن هذا البيع كان وفاء أو بشرط مفسد هو كذا فلا يسمع.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 330) فصل في التاقض: نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
المادة (1648) لا يصح لأحد أن يدعي المال الذي أقر بكونه لغيره بقوله هذا مالي كما أنه لا يصح أن يدعيه بالوكالة أو بالوصاية عن آخر.
شرح مجلة الأحكام للعلامة علي حيدر(ج:4ص:271) دار الجيل،بيروت:
لا يصح لأحد أن يدعي أصالة المال الذي أقر صراحة أو ضمنا بكونه لغيره أي لشخص معين بقوله هذا مالي أو أن لي فيه كذا حصة أو أن يدعيه أحد بالوكالة عنه أو أن يدعيه ورثته بعد وفاته۔
جامع الفصولين (2/ 9):
"وليس لغير أبيه وجده ووصيهما التصرف في ماله، وكذا لو وهب له فلمن هو في حجره قبضه لا إنفاقه عليه، لما مر".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين  (6/ 714) دار الفكر-بيروت:
"الولاية في مال الصغير للأب ثم وصيه ثم وصي وصيه ولو بعد، فلو مات الأب ولم يوص فالولاية لأبي الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه، فإن لم يكن فللقاضي ومنصوبه".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 76) دار الفكر-بيروت:
"(الولي في النكاح) لا المال (العصبة بنفسه) ...... (قوله: لا المال) فإن الولي فيه الأب ووصيه والجد ووصيه والقاضي ونائبه". فقط۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (5/ 107) دار الفكر-بيروت:
(حال وقوعه انعقد موقوفا) وما لا مجيز له حالة العقد لا ينعقد أصلا. بيانه: صبي باع مثلا ثم بلغ قبل إجازة وليه فأجازه بنفسه جاز؛ لأن له وليا يجيزه حالة العقد، بخلاف ما لو طلق مثلا ثم بلغ فأجازه بنفسه لم يجز؛ لأنه وقت العقد لا مجيز له فيبطل ما لم يقل أوقعته فيصح إنشاء لا إجازة كما بسطه العماد۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (5/ 163) دار الفكر-بيروت:
وأصله اختلافهما فيمن غصب مثليا فانقطع فعند أبي يوسف تجب قيمته يوم الغصب، وعند محمد: يوم القضاء وقولهما أنظر للمقرض من قول الإمام، لأن في رد المثل إضرار به ثم قول أبي يوسف أنظر له أيضا، لأن قيمته يوم القرض أكثر من يوم الانقطاع وهو أيسر أيضا فإن ضبط وقت الانقطاع عسیر اهـ ملخصا. ولم يذكر حكم الغلاء والرخص، وقدمنا أول البيوع أنه عند أبي يوسف تجب قيمتها يوم القبض أيضا، وعليه الفتوى كما في البزازية والذخيرة والخلاصة، وهذا يؤيد ترجيح قوله في الكساد أيضا۔
مجلة الأحكام العدلية (ص: 34) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
 (المادة 167) : البيع ينعقد بإيجاب وقبول.
(المادة 168) الإيجاب والقبول في البيع عبارة عن كل لفظين مستعملين لإنشاء البيع في عرف البلد والقوم. ألفاظ البيع هي بعت واشتريت وقبلت ورضيت وقولك كل هذا الطعام على أن يكون لي عندك خمسة قروش، وهذا الشيء فداء لك، أو أملكك هذا الشيء إلى غير ذلك من الألفاظ والعبارات التي تستعمل لإنشاء البيع في عرف البلدان وعادات الأمم.
تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 110) فصل: شركة العنان، دار المعرفة:
( سئل ) فيما إذا كان لكل من زيد وعمرو عقار جار في ملكه بمفرده فتوافقا على أن ما يحصل من ريع العقارين بينهما نصفين واستمرا على ذلك تسع سنوات والحال أن ريع عقار زيد أكثر ويريد زيد مطالبة عمرو بالقدر الزائد الذي دفعه لعمرو بناء على أنه واجب عليه بسبب الشركة المزبورة فهل يسوغ لزيد ذلك ؟ ( الجواب ) : الشركة المزبورة غير معتبرة فحيث كان ريع عقار زيد أكثر تبين أن ما دفعه لعمرو من ذلك بناء على ظن أنه واجب عليه، ومن دفع شيئا ليس بواجب عليه فله استرداده، إلا إذا دفعه على وجه الهبة واستهلكه القابض كما في شرح النظم الوهباني وغيره من المعتبرات.
 

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

25/ربیع الثانی  1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب