021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بریلوی امام کی اقتداء کا حکم
74777نماز کا بیانامامت اور جماعت کے احکام

سوال

ہمارے گھر کے قریب ایک بریلوی مسلک کی مسجد ہے،جس کے امام صاحب دعاء کرواتے ہوئے یہ الفاظ بولتے ہیں: یا رسول اللہ! انظر حالنا،یارسول اللہ! اسمع کلامنا،اسی طرح کے اور بھی بہت سے الفاظ کا اضافہ کرتے ہیں،باقی اس کی ڈاڑھی اور دوسری سب چیزیں ٹھیک ہیں،ایسے بریلوی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جس طرح امام کی ظاہری وضع قطع کا شریعت کے مطابق ہونا ضروری ہے اسی طرح اس کے عقائد کی درستگی اس سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے،سوال میں ذکر کئے گئے جملے بظاہر موجب شرک ہیں اور اس طرح کے جملوں کے پس منظر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ کارفرما ہوتا ہے،حاضر و ناظر یہ دونوں عربی کے لفظ ہیں،ان کے لغوی معنی ہیں موجود اور دیکھنے والا،جب یہ دونوں الفاظ ملاکر بولے جاتے ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسی شخصیت جو بیک وقت ساری کائنات کو محیط ہے اور کائنات کی ایک ایک چیز کے تمام حالات اس کی نظر میں ہیں۔

حاضر و ناظر کا یہ مفہوم صرف اللہ تعالی کی ذات پر صادق آتا ہے اور یہ صرف اللہ ہی کے شایانِ شان ہے،اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مفہوم کے ساتھ حاضر و ناظر سمجھنا کفر اور شرک ہے اور کافر ومشرک  امام کی اقتداء میں نماز نہیں ہوتی۔

لیکن عام طور پر اس طرح کے قابل اعتراض عقائد رکھنے والے لوگ قرآن و سنت کی نصوص میں تاویل کرتے ہیں اور تاویل کرنے والا کافر نہیں ہوتا،بشرطیکہ وہ تاویل ایسی نہ ہو جو ضروریاتِ دین کے مخالف ہو)ضروریاتِ دین سے مراد دینِ اسلام کے وہ امور ہیں جن کا دینِ اسلام کا حصہ ہونا یقینی طور پر تواتر سے ثابت ہو اور ہر خاص و عام کو معلوم ہو(اس لیے ایسے شخص کی تکفیر تاویل کی صورت میں جائز نہیں،تاہم نماز کا معاملہ انتہائی احتیاط کا حامل ہے،لہذا ایسے شخص کی اقتداء میں جس کے شرکیہ عقائد ہوں،جائز نہیں،لیکن اگر کسی نے ماضی میں ایسے شخص کی اقتداء میں نمازیں پڑھی ہوں تو ان کا اعادہ لازم نہیں۔

 

حوالہ جات
"الدر المختار " (1/ 559):                                                                                                   
 (وإن) أنكر بعض ما علم من الدين ضرورة (كفر بها) كقوله إن الله تعالى جسم كالأجسام وإنكاره صحبة الصديق (فلا يصح الاقتداء به أصلا) فليحفظ (وولد الزنا) هذا إن وجد غيرهم وإلا فلا كراهة بحر بحثا. وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة".
"بدائع الصنائع " (1/ 157):
"وإمامة صاحب الهوى والبدعة مكروهة، نص عليه أبو يوسف في الأمالي فقال: أكره أن يكون الإمام صاحب هوى وبدعة؛ لأن الناس لا يرغبون في الصلاة خلفه، وهل تجوز الصلاة خلفه؟
قال بعض مشايخنا: إن الصلاة خلف المبتدع لا تجوز، وذكر في المنتقى رواية عن أبي حنيفة أنه كان لا يرى الصلاة خلف المبتدع، والصحيح أنه إن كان هوى يكفره لا تجوز، وإن كان لا يكفره تجوز مع الكراهة".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

08/جمادی الاولی1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب