021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیر عذر شرعی کے خلع لینا
75123طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

بعد صد تعظیم و تکریم  عرض ہے کہ چند مسائل  جو ذیل  میں ہیں  ان  کے متعلق اسلامی معلومات درکات ہیں۔

مسئلہ نمبر ۱: کیا عورت یعنی  بیوی اپنے خاوند سے   اس کی رضامندی کے بغیر عدالتی خلع حاصل کر سکتی ہے، جبکہ عورت کی کوئی اولاد بھی نہ ہو اور  خلع لینے کا کوئی شرعی عذر بھی نہ ہو ، عورت  یعنی بیوی کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند کو کسی بھی قیمت پر پسند نہیں کرتی ، اگر مرد خلع پر راضی نہ ہو تو کیا یہ بیوی پر ظلم نہیں ہے؟  اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا عدالتی خلع کے بعد  مذکورہ بالا صورت میں ( عدالتی خلع لے کر ) عورت دوسری شادی کر سکتی ہے؟ جبکہ خاوند فدیہ پر بھی راضی نہ ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت میں عقد نکاح کو ختم کرنے کا ایک طریقہ خلع بھی ہے کہ اگر عورت شوہر کے ساتھ رہنے پر رضامندنہیں ہے، اور شوہر اسے طلاق بھی نہیں دیتا  تو عورت کو اختیار ہے کہ وہ اپنا حق مہر واپس کر کے یا کچھ مال بطور فدیہ  دے کر  شوہر کو راضی کرے  اور  اسکی رضامندی سے  خلع حاصل کرے، البتہ یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ خلع کے لیے میاں ، بیوی میں سےہر ایک کی رضامندی ضروری ہے اور اگرکوئی ایک  بھی راضی نہ ہو تو شرعا خلع واقع نہ ہوگا۔

اگر خلع لینے کا  کوئی شرعی عذ ر موجود نہ ہو  اور عورت محض  اس لیے خلع لینا چاہ رہی ہے کہ وہ خاوند کو پسند نہیں کرتی تو  اس صورت میں بھی اگر مرد خلع پر راضی ہو کر خلع دے دیتا ہے تو  شرعا خلع واقع ہو جائیگا   ، البتہ بغیر کسی جواز کے عورت کا خلع لینا چونکہ ایک ناجائز  امر ہے ، اس لیے عورت    ناجائز امر کےارتکا ب کی وجہ سے گناہگار ہو گی۔

عدالتی خلع کے معتبر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں خلع کی شرعی شرائط کا لحاظ رکھا جائے، لیکن عمومی حالات میں عدالتیں خلع کی شرعی شرائط کا لحاظ رکھے بغیر ہی خلع  کا حکم جا ری کر دیتی ہیں: مثلا خلع کے انعقاد کےلیے ضروری ہے کہ خاوند خلع دینے پر راضی ہو جبکہ عموما عدالتوں میں مرد  کی موجودگی یا اس کی رضامندی کے بغیر ہی خلع کا سرٹیفیکیٹ  جاری  کر دیا جاتا ہے،لہذا  عدالت کاخلع کی شرائط کی رعایت کیے  بغیر  ہی خلع کا سرٹیفیکٹ جاری کرنے سے شرعا خلع واقع نہیں ہوگا اور یہ عورت بدستور اسی مردکی بیوی رہے گی۔

صورت مسئولہ میں چونکہ یہ بات واضح لکھ دی گئی ہے کہ نہ تو خلع  اور فسخ نکاح کےلیےکوئی شرعی عذر موجود ہے اور نہ ہی  مرد خلع پر راضی  ہے  تو اس صورت میں عدالتی خلع یقینا یا تو خاوند کی غیر موجودگی میں یا اس کی رضامندی کے بغیر  جاری کیا جائیگا  ، لہذا شرعا یہ معتبر نہ ہو گا اور اس عدالتی خلع سے شرعا خلع  واقع نہ ہوگااور عورت بدستور اسی مرد  کے نکاح میں رہے گی، اس   کے لیے دوسری جگہ نکاح اور شادی کرنا جائز نہ ہو گا ، اگر نکاح کر لیا تو شرعا اس کا کوئی اعتبار نہ ہو گا ۔نیز تنسیخ نکاح کے  کسی شرعی عذر کے نہ ہونے کی وجہ سے اس عدالتی خلع کو  فسخ نکاح کا حکم بھی نہیں دیا جا سکتا۔

دین اسلام ایک فطری مذہب ہے اور شریعت کا ہر ایک حکم فطرت کے عین مطابق اور  ظلم او ر زیادتی کے شائبہ سے کوسوں دور ہے، اسلام نے  اپنے احکام میں جس طرح ہر   فرد کی ضرورت کا  پورا لحاظ رکھا ہے ویسے  پوری قوم اور معاشرے کی ضروریا ت  کی بھی رعایت کی ہے ، اور ایسے معتدل اور متوازن احکامات  جاری کیے ہیں جو فرد کے ساتھ ساتھ معاشرے کی بھی بقا ءکا ذریعہ  ہوں۔فرد کا لحاظ رکھتے ہوئے عورت کو پورا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ شادی صرف اس مرد سے کرے جس پر وہ راضی ہو یا جسے وہ پسند کرتی ہو، اور  عورت کی رضامندی کے بغیر نکاح  کو شرعا منعقد ہی نہیں مانا گیا،  اسی  وجہ سے شریعت میں کفو یعنی  اپنے برابر اور اپنی حیثیت  کے لوگوں میں شادی کا حکم دیا گیا ہے، نیز ان سب چیزوں  کی رعایت رکھتے ہوئے اگر شادی ہو گئ اور اس کے بعد عورت اور مرد کے درمیان کسی وجہ سے  نباہ نہیں ہو پا رہا تو  پھر بھی شریعت نے  مرد کو طلاق کا اور عورت کو خلع کا اختیار دیا ہے اور اگر مرد  خلع پر راضی نہ ہو اور فسخ نکاح کے اسباب پائے جائیں تو عورت کو مرد کی رضامندی کے بغیر ہی عدالت سے نکاح ختم کرانے کا بھی اختیار دے دیا ہے۔

البتہ  فرد کی ان ضروریات  کے ساتھ ساتھ معاشرے کی ضرورت کا  لحاظ رکھتے ہوئے  کسی شرعی عذر کے بغیر  یکطرفہ نکاح ختم کرنے کا اختیار محض مرد کو  دیا گیا ہے،  عورت کو نہیں دیا گیا  ، کیونکہ ایک تو تخلیقی طور پر مرد کو عورت پر  بڑا اور حاکم بنا یا گیا ہے اور دوسرا یہ کہ  عموما عورت  ، مرد کے مقابلے میں کم سمجھ ، جلد غصہ اور مشتعل ہونے والی اور جلدبازی میں فیصلہ کرنے والی ہوتی ہے ، چنانچہ اگر اس طرح کا اختیار عورت کے حوالے کر دیا جاتا تو  نکاح جیسے مقدس رشتے کی اہمیت کم ہو جاتی ،  طلاق کی شرح بڑھ جاتی اور خاندانی نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا  اور یوں معاشرے کی بقاء  بھی خطرے میں پڑ جاتی ، لہذا شریعت نے قوم اور معاشرے کی ضرورت کو  مد نظر رکھتے ہوئے   عورت کو یہ اختیار نہیں دیا۔

ان باتوں  پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ  بغیر کسی وجہ کے  عورت کو یکطرفہ نکاح ختم کرنے کا اختیار نہ دینا عورت پر ظلم نہیں   بلکہ بقاء معاشرے کےلیے ایک  ضروری اقدام   ہے۔  لہذا عورت نے جب اپنی رضامندی سے نکاح کر لیا ہے تو اسے نبھانے  کی کوشش کرے اور اگر   اس رشتہ کو باقی نہیں رکھناچاہتی تو   طلاق یا خلع  کے ذریعے ہی اس نکاح کو ختم کرنے کی کوشش کرے  ، البتہ اگر طلاق اور خلع کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو یہ زندگی چونکہ  برائے آزمائش ہے، برائے آسائش نہیں، لہذا عورت    صبر اور برداشت سے کام لے  اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کر کے اللہ تعالی سے اس معاملہ کے حل کےلیے دعائیں مانگے، ان شاء اللہ  اس معاملہ کےحل کی  کوئی نہ کوئی صورت  نکل آئیگی۔

حوالہ جات
[البقرة: 229]
{الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ }.
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (2/ 59)
(إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس أن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به) المشاقة المخالفة والتباعد عن الحق وهو أن يكون كل واحد منهما في شق على حدة ولم يدر من أيهما جاء النشوز وحدود الله ما يلزمهما من موجب النكاح وهو ما فرضه الله للزوج عليها ولها عليه وإنما شرط التشاقق؛ لأنه إذا لم يكن منها نشوز وكان ذلك منه كره له أن يأخذ منها شيئا (قوله فإذا فعل ذلك وقع بالخلع تطليقة بائنة).

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۶ جمادی الاولی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب