021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جن علاقوں میں دن یا رات لمبے عرصہ تک جاری رہتے ہوں وہاں روزہ رکھنے کا حکم
75132روزے کا بیانروزے کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ جہاں سورج چھ ماہ رہتاہے، وہاں رات بھی چھ ماہ   کی ہے اور دن بھی چھ ماہ کا ہے، کسی جگہ دو ماہ کادن اور دو ماہ کی رات ہوتی ہے اور کہیں سورج صرف پانچ یا دس منٹ کے لیے ہی نکلتاہے اور باقی اندھیرا رہتا ہے اگر وہاں آبادی بھی ہو مثلا : فن لینڈ ، آئس لینڈ، ناروے کے کچھ علاقے اور کینیڈا کےکچھ علاقہ جات تو وہاں روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟  کیا وہاں استثنائی رولز کے تحت  روزہ کااطلاق ہی نہ ہو گا؟ جیسے کہ حضرت  آدم علیہ السلام  اور  حضرت عیسی علیہ السلام  استثنائی رولز کے تحت بغیر باپ کے پیدا ہوئے ، باقی انسان عام جنرل  رولز کے تحت  پیدا ہوتے ہیں، اور قرآن کریم کے مطابق غروب آفتا ب کے بعد ہی  روزہ افطار کرنا ہوتاہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں ذکر کیے گئے  علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے روزوں سے متعلق حکم یہ ہے کہ  وہ اپنے قریب ترین ملک جہاں دن اور رات جدا جداہوں،اور ہر چوبیس گھنٹے کے اندر ان کی گردش مکمل ہو جاتی ہو اس کے اوقات کے اعتبار سے  ماہ رمضان کی ابتداء کر کے روزہ رکھنا شروع کریں گے اور  پھر اسی اعتبار سے ماہ رمضان کا اختتام کر کے عید الفطر منائیں گے، نیز اوقات سحرو افطار  اور   طلوع آفتاب، غروب آفتاب کا تعین بھی اپنے قریب  ترین ملک سے ہی کریں گے۔

یا د رہے کہ اس طرح کے علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اس طرح کے کوئی استثنائی احکام نہیں ہیں  کہ ان پر سے کوئی عبادت ہی ساقط ہو جائے، کیونکہ  عبادات کا وجوب جب  اللہ تعالی کی طرف سے ہو ا ہے تو ان کو ساقط کرنے کا اختیار بھی اسی کا ہے، اور شارع کی طرف سے ایسی کوئی دلیل ہمارے علم میں  نہیں جس سے معلوم ہو کہ اس طرح کےعلاقوں میں بسنے  والوں پر سے عبادت ساقط ہوجائیگی،   لہذا روزہ پر استثنائی احکام لاگو کر کےاسے ساقط نہیں کیا جائیگا، بلکہ روزے بدستور  فرض اور لازم رہیں گے۔

نیز افطاری   کے لیے  غروب  آفتاب کا ہونا وہاں ضروری ہے جہاں  دن اور رات جدا جدا ہوں اور  ہر چوبیس گھنٹے کے اندر ان کی گردش مکمل ہو جاتی ہو، لہذا جہاں چوبیس گھنٹے میں  دن رات  کی گردش مکمل نہ ہوتی ہو وہاں  افطاری کے لیے غروب آفتاب کا ہونا ضروری نہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 366)
 لم أر من تعرض عندنا لحكم صومهم فيما إذا كان يطلع الفجر عندهم كما تغيب الشمس أو بعده بزمان لا يقدر فيه الصائم على أكل ما يقيم بنيته، ولا يمكن أن يقال بوجوب موالاة الصوم عليهم؛ لأنه يؤدي إلى الهلاك. فإن قلنا بوجوب الصوم يلزم القول بالتقدير، وهل يقدر ليلهم بأقرب البلاد إليهم كما قاله الشافعية هنا أيضا، أم يقدر لهم بما يسع الأكل والشرب، أم يجب عليهم القضاء فقط دون الأداء؟ كل محتمل، فليتأمل. ولا يمكن القول هنا بعدم الوجوب أصلا كالعشاء عند القائل به فيها؛ لأن علة عدم الوجوب فيها عند القائل به عدم السبب، وفي الصوم قد وجد السبب وهو شهود جزء من الشهر وطلوع فجر كل يوم، هذا ما ظهر لي، والله تعالى أعلم.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (1/ 81)
وما روي «ذكر الدجال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قلنا ما لبثه في الأرض قال أربعون يوما كسنة ويوم كشهر ويوم كجمعة وسائر أيامه كأيامكم فقيل يا رسول الله فذلك اليوم الذي كسنة أيكفينا فيه صلاة يوم قال لا أقدروا له» رواه مسلم فقد أوجب فيه ثلثمائة عصر قبل صيرورة الظل مثلا أو مثلين وقس عليه فاستفدنا أن الواجب في نفس الأمر خمس على العموم غير أن توزيعها على تلك الأوقات عند وجودها فلا يسقط بعدمها الوجوب، وكذا قال - صلى الله عليه وسلم - «خمس صلوات كتبهن الله على العباد» ومن أفتى بوجوب العشاء يجب على قوله الوتر اهـ.
سنن أبي داود (4/ 117)
حدثنا صفوان بن صالح الدمشقي المؤذن، حدثنا الوليد، حدثنا ابن جابر، حدثني يحيى بن جابر الطائي، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير، عن أبيه، عن النواس بن سمعان الكلابي، قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الدجال، فقال: «إن يخرج وأنا فيكم فأنا حجيجه دونكم، وإن يخرج ولست فيكم، فامرؤ حجيج نفسه، والله خليفتي على كل مسلم، فمن أدركه منكم فليقرأ عليه فواتح سورة الكهف، فإنها جواركم من فتنته»، قلنا: وما لبثه في الأرض؟ قال: " أربعون يوما: يوم كسنة، ويوم كشهر، ويوم كجمعة، وسائر أيامه كأيامكم "، فقلنا: يا رسول الله، هذا اليوم الذي كسنة، أتكفينا فيه صلاة يوم وليلة؟ قال: «لا، اقدروا له قدره، ثم ينزل عيسى ابن مريم عند المنارة البيضاء شرقي دمشق، فيدركه عند باب لد، فيقتله».

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۶ جمادی الاولی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب