021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زکوۃ کا مال تبلیغی جماعت پر خرچ کرنے کا حکم
71455زکوة کابیانمستحقین زکوة کا بیان

سوال

سوال: کیافرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

ایک آدمی کے پاس زکوۃ کی مد میں کچھ رقم ہے ۔۔

1۔کیا وہ اس رقم کو تبلیغی جماعت والوں کے اکرام کے لیے استعمال کر سکتا ہے یا نہیں؟( جبکہ حالت یہ ہوتی ہے کہ جماعت میں چلنے والے لوگ اپنے وقت کے اعتبار سے اپنا ضرورت کا خرچ لے کر نکلتے ہیں۔

نیز یہ کہ جماعت میں وقت لگانے والوں میں بعض لوگ صاحب وسعت ہوتے ہیں جو صدقہ خیرات وغیرہ کی مد میں کسی چیز کا استعمال اپنے لیے معیوب سمجھتے ہیں،اسی طرح بعض سید زادے بھی ہوتے ہیں عباسی،علوی وغیرہ ۔تو اگر اکرام کرنے والا وضاحت نہ کرے کہ میں زکوۃ کے پیسوں سے آپ کی ضیافت کررہا ہوں تو اس صورت میں سید زادے کا بھی زکوۃکا کھانا کھانا لازم آئے گا ۔اسکا حل کیا ہے؟

2۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس جماعت میں وقت لگانے کے لیے پیسے نہ ہوں تو کوئ دوسرا شخص جس کے پاس اپنے مال کی زکوۃکے پیسے ہوں ۔تو کیا یہ شخص پہلے والے آدمی کو زکوۃ کی رقم دیکر جماعت میں بھیج سکتا ہے ؟

کیا ان دونوں صورتوں میں زکوۃ ادا ہوجائے گی۔۔۔؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ زکوۃ کی ادائیگی کے لیے شرط ہے کہ مستحق کو  اس طرح مالک بنایا جائے کہ اس کی منفعت پہلے مالک  سے منقطع ہو جائے۔ جبکہ صورت مسئولہ میں تبلیغی جماعت کی  ضیافت کی صورت میں زکوۃ کا مال خرچ کرنا  ان کو مالک بنانا نہیں، بلکہ  صرف ان کے لیے   ضیافت کا کھانامباح کیا جاتا ہے۔   چنانچہ اس صورت میں تو  ابتداء ہی سے زکاۃ ادا نہ ہوئی۔ اور اگر ان کو مالک بنایا جاتا ہے تو ان کوزکاۃ دینا اس شرط کے ساتھ درست ہے کہ وہ ہاشمی نہ ہو۔  تاہم دیگر نفلی صدقات  ہاشمی اور سید زادے کو بھی دیے جا سکتے ہیں۔

 لیکن بہتر یہ ہے کہ صدقات کا مال  اکرام وضیافت میں صرف نہ کیا جائے، تاکہ  جو صاحب ثروت اس مال سے بچنا چاہتے ہیں وہ اس میں مبتلا نہ ہوں۔

باقی  تبلیغی جماعت میں وقت لگانے کے لیے کسی کو زکاۃ کا مال دینا جائز ہے  ، بشرطیکہ جس کو مال دیا جا رہا ہے وہ  مستحق زکاۃ ہو اور ہاشمی نہ ہو۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 170)
أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله۔۔۔
ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه
ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية
فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم كذا في الكافي، وكذا لا يدفع إلى مواليهم كذا في العيني شرح الكنز. ويجوز صرف خمس الركاز والمعدن إلى فقراء بني هاشم كذا في الجوهرة النيرة.
النهر الفائق شرح كنز الدقائق (1/ 418)
ولا يشترط علم المدفوع إليه بأنه زكاة حتى لو وهب لمحترم زكاته أو أقرضه إياها ناوياً الزكاة أجزأه على الأصح كما في (القنية)
الاختيار لتعليل المختار (1/ 119)
: (والمنقطع عن ماله) وهو ابن السبيل لأنه لا يتوصل إلى الانتفاع بماله فكان كالفقير، فهو فقير حيث هو غني حيث ماله،
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 222)
وكذلك ابن السبيل له أخذ الزكاة مع وجوبها عليه في ماله الذي ببلده
 

ذاھب حنان

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

02/01/2022

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ذاہب حنان بن محمد رمضان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب