021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کچرے کے مشترکہ کاروبار کا حکم
71454شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

میں فاروق احمد کچرے کا کاروبار کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔ میں اپنے بھائی محمد ارشد کو کہتا  ہوں کہ مجھے تیس لاکھ  روپے کی ضرورت ہے۔ میرا بھائی محمد ارشد اس فیکٹری کو جسے میں نے کچرا بیچنا ہے کہتا ہے، تو وہ فیکٹری اس کو دس لاکھ روپے دیتی ہے، اور یہ کہتی ہےکہ کچرے کی اصل قیمت ایڈوانس کیش نہ دینے کی صورت میں تین سو روپے فی من ہے۔ لیکن ایڈوانس دس لاکھ کی صورت میں دو سو پچاس روپے فی من میں خریدیں گے۔ محمد ارشد کا ایک دوست کہتا ہےکہ میرے پاس دس لاکھ روپے ہیں ان دس لاکھ روپے کو کسی کاروبار میں لگا دیں۔ محمد ارشد یہ دس لاکھ روپے بھی مجھے دے دیتا ہے اور کہتا ہے ، اسی کچرے کے کاروبار میں ان پیسوں کو لگا دو، لیکن ان میں سے پچاس روپے فی من اس دس لاکھ دینے والے کو دینے ہوں گے ۔ اسی طرح محمد ارشد کا ایک اور دوست اسے دس لاکھ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ان کو کسی کاروبار میں لگا دو ۔ محمد ارشد یہ دس لاکھ بھی مجھے دیتا ہے  اور کہتا ہے ان کو  بھی اسی کچرے کے کاروبار میں لگا دو، لیکن ان میں سے پچاس روپے فی من اس دس لاکھ روپے دینے والے دوست کے ہوں گے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ میں ان تیس لاکھ کو کچرے کے کاروبار میں لگا کر اس طرح کا کاروبار کر سکتا ہوں یا نہیں۔  یا اس کی صحیح صورت کیا بنے گی۔ برائے مہر بانی مسئلے کی وضاحت فرما دیں۔

تنقیح: سائل سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ فیکٹری کی جانب سے ملنے والے دس لاکھ روپے بطور قرض ہیں، جن کی ادائیگی لازم ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے اس مشترکہ کاروبارمیں تین لوگوں کا سرمایہ  ہے۔ فیکٹری نے جو دس لاکھ ایڈوانس  دیے وہ قرض کی حیثیت سے دیے، جبکہ دیگر دو لوگوں نے کاروبار میں شریک کی  حیثیت سے سرمایہ لگایا۔ درج ذیل  ناجائز امور کی وجہ سے اس طریقے سے کاروبار درست نہیں۔

1۔فیکٹری  نے جو دس لاکھ روپے بطور قرض دیے، ان کی بنیاد پر کچرے کے ریٹ میں کمی  قرض  سے فائدہ اٹھانا ہے  جو کہ ناجائز ہے، نیزاس شرط پر قرض کا معاملہ کرنا درست نہیں۔

2۔ دیگر شرکاء کے لیے  پچاس روپے فی من  نفع  طے کیا جا رہا ہے ،  اورنفع کی اس طریقے سے تعیین بھی درست نہیں۔  اس طرح متعین    رقم  نفع میں طے کرنے سےعقد شرکت فاسد ہوجاتا ہے۔

کاروبار کی درست صورت یہ ہے کہ فیکٹری سے ایڈوانس لینے والا الگ معاملہ ہو، جو کچرے کے ریٹ کم کروانے پر اثر انداز نہ ہو۔  تاہم فیکٹری اورکاروبار کے شرکاء  باہمی رضامندی سے آزادانہ طور پر کچرے کا  کوئی  بھی ریٹ طے کر سکتے ہیں۔

باقی دیگر شرکاء کے لیے نفع کا فیصدی حصہ طے کیا جائے، جو ان کے سرمائے کے تناسب سےبھی ہو سکتا ہےاور اس سے کم بھی ہو سکتا ہے۔ البتہ نقصان وہ اپنے لگائے ہوئےسرمائے کے تناسب سے برداشت کریں گے۔

حوالہ جات
البناية شرح الهداية (8/ 493)
 (وقد «نهى الرسول - عَلَيْهِ السَّلَامُ - عن قرض جر نفعا» ش: الحديث رواه علي - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - ولفظه: قال رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «كل قرض جر نفعا فهو ربا»
الاختيار لتعليل المختار (3/ 17)
(ولا يجوز أن يشترطا لأحدهما دراهم مسماة من الربح) ; لأنه قد لا يربح ما سميا أو يربح ذلك لا غير فتبطل الشركة فكان شرطا مبطلا للشركة فلا يجوز.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 352)
المادة (1337) - (يشترط أن تكون حصة الربح الذي بين الشركاء جزءا شائعا كالنصف والثلث والربع فإذا اتفق على أن يكون لأحد الشركاء كذا درهما مقطوعا من الربح تكون الشركة باطلة)

ذاہب حنان

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

02/01/2022

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ذاہب حنان بن محمد رمضان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب