021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پلاٹ پر زکوۃ کا حکم
73337زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

میرا دوست بیرون ملک مقیم ہے اور وہاں کام کرتا ہے اس کا پاکستان میں گھر ہے ۔اس نے ایک نئی رہائشی کالونی میں گھر بنانے کے لئے پلاٹ خریدا ہے تاکہ بڑا گھر بنا سکے اور پاکستان آکر اچھا گھر بنا سکے اور کاروبار  کرنے کے لئے صنعتی ایریا میں بھی ایک پلاٹ اپنا کام شروع کرنے کے لئے خریدا ہے۔ کیاان دونوں پلاٹس کی مالیت پر زکوۃ دینا ہو گی یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زکوۃ ایسے پلاٹ پر واجب ہوتی ہے جو تجارتی غرض یعنی آگے بیچنے کی نیت سے خریدا جائے اور یہ  نیت  برقرار بھی رکھی جائے یعنی ایسے پلاٹ  پر زکوۃ واجب ہوتی ہے جس کو خریدنے سے یہ نیت ہو کہ اس کو بیچ کر نفع حاصل کیا جائے گا۔

مذکورہ صورت میں جس پلاٹ کو نئی رہائشی کالونی میں اس نیت سے خریدا ہے کہ اس پر گھر بنائے گا اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔اسی طرح دوسرا پلاٹ جوصنعتی ایریا میں خریداہے وہ بھی چونکہ آگے بیچنےکی نیت سے نہیں خریدا بلکہ اس نیت سے خریدا ہے کہ اس پر  اپناکام شروع کیاجائے گا اس لئے اس پر بھی زکوۃ واجب نہیں ہوگی  ۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 11)
(ومنها) كون المال ناميا؛ لأن معنى الزكاة وهو النماء لا يحصل إلا من المال النامي ولسنا نعني به حقيقة النماء؛ لأن ذلك غير معتبر وإنما نعني به كون المال معدا للاستنماء بالتجارة أو بالإسامة
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 13)
إن كانت الدار معدة للتجارة فكان في المسألة روايتان ومشايخ بلخ كانوا يصححون رواية الجامع ويقولون: إن العين وإن كانت للتجارة لكن قد يقصد ببدل منافعها المنفعة فيؤاجر الدابة لينفق عليها والدار للعمارة فلا تصير للتجارة مع التردد إلا بالنية.

  محمد عبدالرحمن ناصر

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

04/11/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبدالرحمن ناصر بن شبیر احمد ناصر

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب