021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پراویڈنٹ فنڈ پر اضافہ لینے کا حکم
71221سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

میں ایک پرئیویٹ کمپنی میں ملازم ہوں ۔ اس کمپنی میں ہرمہینے میری تنخواہ سے پراویڈنٹ فنڈ کیلیے  پیسے کاٹ لیے جاتے ہیں، مطلب اگر میری تنخواہ پچاس ہزار ہے تو اس کا دس فیصدوہ کاٹتے ہیں ، یعنی پانچ ہزار روپے ،اور پھر پانچ ہزار روپے اپنی طرف سے ملا کے کسی جگہ انویسٹ کرتے ہیں ،کسی بینک میں یا کسی انشورنس کمپنی میں  ۔پھر سال بعد اصل رقم اور اوپر اضافہ بھی دیتے ہیں۔

کیا میرے لیے اصل رقم اور اوپر کیا گیا اضافہ لینا جائز ہے ؟ کیا یہ سود نہیں ہے؟

تنقیح: سائل کے زبانی بیان کے مطابق ملازم کو کمپنی میں یہ اختیار  ہے کہ وہ کمپنی کو  ماہانہ دس فیصد کٹوتی سے روک سکتا ہے۔البتہ اس صورت میں کمپنی اپنی طرف سے جو پانچ ہزار ملا کر انویسٹ کرتی تھی وہ ملازم کو نہیں دیے جاتے۔



                                 

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پراویڈنٹ فنڈ کیلے اگر ملازم کے اختیار سے رقم کاٹی گئی ہے  اور اس پر جو اضافہ  دیا گیا ہے   تو اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

(1)۔ایک صورت یہ ہے کہ  کمپنی پراویڈنٹ  فنڈ سے  حاصل ہونے والا نفع بینک سے خود   حاصل کرکےاپنی مرکزی اکاؤنٹ میں جمع کرے ۔اس صورت میں اگر  کمپنی کے اکاؤنٹ میں غالب مال حلال ہے تو ملازم کےلیے اصل رقم اور اوپر دیا گیا اضافہ لینا جائز ہو گا۔

(2)۔دوسری صورت یہ ہے کہ  کمپنی ملازم سے کہے کہ وہ خود بینک یا انشورنس کمپنی سے جا کر وصول کرے تو اس صورت میں ملازم کیلیے  حرام نفع لینا جائز نہیں ۔اگر لاعلمی میں لے لیا  تو اسے بلا نیتِ ثواب  فقراء پر صدقہ کردے۔

البتہ اصل رقم اور کمپنی اپنی طرف سے جو پانچ ہزار ملاتی ہے وہ لینا بہر صورت جائز ہے۔

پراویڈنٹ فنڈ میں سود کے نام سے جو رقم دی جاتی ہے اس کے سمجھنے کیلیے یہ بات مد نظر رکھی جائے کہ سود  ایک دو طرفہ معاملہ ہے جو دو طرفہ طے ہو کر وجود میں آتا ہے ۔ کمپنی پراویڈنٹ فنڈ کے نام سے جو رقم ملازم کی اجرت سے کاٹتی ہے وہ ملازم کی ملکیت میں نہیں آتی کیونکہ ملکیت میں آنے کیلیے ضروری ہے کہ ملازم اس پر قبضہ کرے ۔تو جب ملازم اس کا مالک نہیں تو اس میں ملازم کے تصرفات بھی نافذ نہیں ہوتے۔یہ کاٹی گئی اجرت کمپنی کےذمہ ملازم کا  قرضہ ہے جس کے مطالبہ کا ملازم کو حق ہے۔

فنڈ میں کمپنی جو سودی معاملات کرتی ہے اس کی ذمہ دار کمپنی ہے کیونکہ کمپنی اپنی ملکیت میں یہ معاملات کر رہی ہے ، کمپنی کا ایسے معاملات کرنا یکطرفہ عمل ہے جس کا ملازم کو کوئی گناہ نہیں ہے۔ کمپنی جب اس مال  پر سودی معاملہ کرکے،  اس کا سود حاصل کر کے اپنے مرکزی اکاؤنٹ میں ڈال لیتی ہے اور اس اکاؤنٹ کا غالب مال حلال ہو، پھر اس میں سے ملازم کو اصل رقم بمع اضافہ دے، تو اس کا استعمال ملازم کیلیے جائز ہو گا ۔کیونکہ اس سودی معاملہ میں ملازم کا کوئی دخل نہیں اور جس اکاؤنٹ سے اسے فنڈ  دیا گیا ہے اس میں حلال اور حرام دونوں مال ملے ہوئے ہیں اور حلال مال غالب ہے ۔

البتہ اس صورت میں سود کا معاملہ ملازم کی جانب سے نہ ہونے کی وجہ سے اگرچہ اضافہ لینا جائز ہے، لیکن  اس کی کسی حد تک سود سے مشابہت پھر بھی ہے وہ اس طرح کہ اس معاملہ میں  ملازم کو اختیار ہے کہ وہ اپنی اجرت کی کٹوتی نہ کروائے اور اسے سودی معاملہ کا حصہ نہ بننے دے۔اسی وجہ سے علماء کہتے ہیں کہ سود سے مشابہت ہونے کی وجہ سے اسے سود خوری کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔لہذا   بہتر یہی ہے کہ اس اضافہ کو نہ لیا جائے اور اگر لے لیا ہے  تو اس کو صدقہ کردے۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 203)
 فالأجرة وإن كانت تجب شيئا فشيئا فقد شرط تأجيل الأجرة، والأجرة كالثمن فتحتمل التأجيل كالثمن.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (7/ 300)
(قوله بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لا يملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة والمراد أنه لا يستحقها المؤجر إلا بذلك كما أشار إليه القدوري في مختصره لأنها لو كانت دينا لا يقال أنه ملكه المؤجر قبل قبضه وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر كذا في المحيط لكن ليس له بيعها قبل قبضها۔
البناية شرح الهداية (8/ 260)
(الربا)۔۔في الشرع فضل مال بلا عوض في معاوضة مال بمال.
صحیح فقہ السنۃ وأدلتہ و توضیح مذاھب الأئمۃ (304\4)
لیس کل زیادۃ ربا فی الشرع، ولیس کل زیادۃ فی بیع ربا۔
احكام المال الحرام (ص: 50)
إن لم يُعرف فى المخلوط من الحلال والحرام أنّهما متميّزان أو مختلطان، وكم حصّةُ الحلال فى المخلوط، فالأولى التّنزّه، ولكن يجوز التّعامل بذلك المخلوط إذا غلب على الظّنّ أنّ المتعاملَ به لايتجاوز قدر الحلال.
احكام المال الحرام (ص: 2)
كل مال حرام لايملكه المرأ فى الشرع، سواء كان غصبا أو سرقة أو رشوة أو ربا فى القرض، أو مأخوذا ببيع باطل وإنه حرام للغاصب الانتفاع به أو التصرف فيه، فيجب عليه أن يرده إلى مالكه، أوإلى وارثه بعد وفاته، وإن لم يمكن ذلك لعدم معرفة المالك أو وارثه، أولتعذر الرد عليه لسبب من الأسباب، وجب عليه التخلص منه بتصدقه عنه من غير نية ثواب الصدقة لنفسه۔

  محمد عبدالرحمن ناصر

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

10/06/1442

‏                                                 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبدالرحمن ناصر بن شبیر احمد ناصر

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب