021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
صلح کروانے کی غرض سے قسم اٹھانا
75239قسم منت اور نذر کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

کیا دو لوگوں کے درمیان صلح کے لیے اللہ کی قسم کھا سکتے ہیں؟ اگر غلطی سے کھا لی ہو تو اس کا کفارہ کیا ہو گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دو لوگوں کے درمیان صلح کرانے  کےلیے سچی قسم کھائی جا سکتی ہے لیکن  بہتر یہی ہے  کہ دنیوی امور کےلیے اللہ کی قسم نہ کھائی جائے، البتہ  صلح کرانے کےلیے جھوٹی قسم کھانا   جائز نہیں ، جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر ماضی کے کسی کام پر جھوٹی قسم کھائی   جائے تو یہ گناہ کبیرہ اور حرام ہے، جس پر فوری طور پر توبہ و استغفار لازم ہے،  البتہ اس صورت میں کسی طرح کا کفارہ لازم نہ ہوگا، اور اگر مستقبل کے کسی کام  پر اللہ کی قسم کھائی جائے اور پھر وہ کام پورا نہ ہو سکے تو اس صورت میں  قسم کھانے والا حانث کہلائیگا جس پر قسم کا کفارہ اد ا کرنا  لازم ہو گا ۔

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کاکھانا کھلا دیا جائے  یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر  کی

مقدار   کے بقد ر گندم( یعنی نصف صاع جو کہ تقریباسوا  دو کلو بنتے ہیں) یا اس کی  قیمت دے دی جائے ، یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو  " جو" کی گندم سے دوگنی مقدار ( یعنی ایک صاع جو کہ تقریبا 3 کلو485گرام   بنتے ہیں) دے دی جائے، یا دس فقراء میں سے ہر ایک کو ایک جوڑا کپڑا پہنا دیا جائے  ۔ اگر قسم توڑ کر  حانث ہونے والا شخص ان چیزوں کی ادائیگی پر  قادر  نہ ہو تو پھر اس پر کفارہ قسم کے طور پر مسلسل تین دن کے روزے رکھنا لازم ہے ۔

حوالہ جات
 [المائدة: 89]
{لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ}
صحيح البخاري (8/ 137)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا فِرَاسٌ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الكَبَائِرُ: الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَاليَمِينُ الغَمُوسُ ".
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 72)
وأما بيان جنس الواجب وقدره وصفته أما جنسه وقدره فهو نصف صاع من حنطة، أو صاع من شعير، أو صاع من تمر وهذا عندنا.
وقال الشافعي: من الحنطة صاع.
واحتج بما روي عن أبي سعيد الخدري - رضي الله عنه - أنه قال: كنت أؤدي على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - صاعا من بر، ولنا ما روينا من حديث ثعلبة بن صغير العذري أنه قال خطبنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: «أدوا عن كل حر وعبد نصف صاع من بر، أو صاعا من تمر، أو صاعا من شعير» وذكر إمام الهدى الشيخ أبو منصور الماتريدي أن عشرة من الصحابة - رضي الله عنهم - منهم أبو بكر وعمر وعثمان وعلي - رضي الله عنهم - رووا عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في صدقة الفطر نصف صاع من بر واحتج بروايتهم.
وأما حديث أبي سعيد فليس فيه دليل الوجوب بل هو حكاية عن فعله فيدل على الجواز وبه نقول فيكون الواجب نصف صاع وما زاد يكون تطوعا على أن المروي من لفظ أبي سعيد - رضي الله عنه - أنه قال: «كنت أخرج على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - صاعا من طعام، صاعا من تمر، صاعا من شعير» وليس فيه ذكر البر فيجعل قوله صاعا من تمر صاعا من شعير تفسيرا لقوله «صاعا من طعام»  .

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۹ جمادی الاولی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب