021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے لیے رشوت دینے کا حکم
75281جائز و ناجائزامور کا بیانرشوت کا بیان

سوال

ہمارے ضلع میں سرکاری اسکول میں ٹیچنگ کی پوسٹیں آئی ہیں۔میں نے بھی ٹیچنگ کے لیے اپلائی کیا،لیکن سلیکشن کمیٹی کے لوگ چار لاکھ رشوت مانگ رہے ہیں۔کیا میرے لیے رشوت دے کر یہ ملازمت حاصل کرنا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

رشوت دینا اس وقت بامر مجبوری جائز ہے جب آپ کا شرعا ثابت شدہ حق آپ کو رشوت کے بغیر نہ مل رہا ہویا رشوت نہ دینے سے آپ کو نقصان پہنچنے کا قوی اندیشہ ہو۔مذکورہ صورت میں سرکاری اسکول میں ٹیچنگ آپ کا شرعاثابت شدہ حق نہیں،اس لیے آپ کے لیے رشوت دینا جائز نہیں۔البتہ اگر رشوت دے کر ملازمت حاصل کرلی ہو اور آپ اس کام کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو وہ نوکری اور تنخواہ جائز ہوگی۔

حوالہ جات
‌ثم ‌الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة.
الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق؛ لأنه واجب عليهالثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقطالرابع: ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ؛ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب(رد المحتار،کتاب القضاء:5/362)
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لعن الله الراشي والمرتشي في الحكم "(مسند أحمد:15/8 رقم الحدیث 9021)

       محمد انس جمال          

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

06جمادی الثانیۃ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

انس جمال بن جمال الدین

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب