021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بالغ ہونےکےبعدبچی کےاخراجات کی ذمہ داری
75297نان نفقہ کے مسائلوالدین،اوراولاد کے نفقہ اور سکنی کے احکام

سوال

کیافرماتےہیں علماءحق ومفتیان دین درج ذیل مسئلہ کےبارےمیں۔براہ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرماکرعنداللہ ماجورہوں۔

(تلخیص سوال):میری ایک جواں سال بیٹی اپنی شادی کےتقریباًدوسال بعد ہی ایک سات ماہ کی بیٹی چھوڑکر وفات پاگئی،میری اہلیہ نےاس معصوم بچی(نواسی)کوداماد کی اجازت سےبغرض بہتر نگہداشت وپرورش اپنےگھر لےآئی،یہ بول کرکہ جب یہ سمجھ دارہوجائےاپنی امانت واپس لےجانا،یہ بچی بڑی ہوتی گئی،تقریباً سات،آٹھ برس تک یہ بالکل نارمل تھی،دوڑتی پھرتی تھی،مگرقد ایک سطح پرآکر رک گیا،ہم نےاحساس کرتےہوئےاس بچی کواسکےوالد کی اجازت اوراعتماد میں لےکرمختلف معالجین کوچیک اپ کرایا،پھرکسی کےتجویز پراس بچی کوانڈس ہسپتال کراچی چیک اپ کرانےلےگئے،جانےسےپہلےہم نےدامادسےکہابہتر ہوگاتم بھی کراچی ہمارےساتھ چلو،خرچ ہم کرینگے،مگرداماد نےکہامیرےپاس ٹائم نہیں ہے،خودہی چلےجاؤ،ٹیسٹ ہونےپر مرض کی تشخیص بنام "گوشر"ہوئی،اورکہاعلاج پرمبلغ چھیانوےلاکھ روپے(9600000)خرچ آئیگا،آٹھ آٹھ لاکھ روپےکےبارہ عددانجکشن بچی کولگائےجائیں گے۔

انڈس میں پروگرام ٹیلی کاسٹ ہونےکےچندہی روزبعدبحریہ ٹاؤن پاکستان کےجناب ملک ریاض صاحب نےاپنےبھائی جوکراچی میں مقیم ہیں،انہوں نےہسپتال میں آکرہی  بچی کےعلاج پرآنےوالےمکمل اخراجات اٹھانےکااعلان کرتےہوئے،اسی وقت مبلغ بیس لاکھ روپے(2000000)کاچیک ہسپتال انتظامیہ کوپیش کرتے ہوئےفرمایا:علاج شروع کریں،آئندہ وقتافوقتاً رقم بھجواتارہوں گا۔

بچی کویکےبعددیگرےدوانجکشن لگ چکے،مگرجب تیسرےانجکشن کاٹائم پیریڈقریب ہونے کوہوا،توملک صاحب نےفون کےذریعےتلخ لہجےمیں جواب دیا کہ ہم سےجتناہوسکاکردیا،بول کرفون کاٹ دیا،ہم پریشان ہوگئے۔آہستہ آہستہ معذورہوتی ہوتی آخرکار بالکل ہی اپاہج ہوگئی۔اب عمر تقریباً سولہ(16)برس ہونےکوہےاور گذشتہ سات،آٹھ سال سےاس بچی سےمتعلق تمام ترامورمثلاً پیشاب،پائخانہ،لٹانا،بٹھانا،پلانا،پیمپر باندھنا،ہفتہ دس دن بعدنہلانانیزعارضی ریلیف کےلیےدوادارؤ،وغیرہ وقت پردینا،یہ سب کام بستر،چارپائی پرہی میری اہلیہ سرانجام دیتی آرہی تھیں کہ گذشتہ تین ماہ قبل اہلیہ جو کہ بلڈپریشر وشوگرکےمرض کےسبب اچانک اس دارفانی سےکوچ کرگئیں۔اب ان کےانتقال کےبعد یہی جملہ اموربچی سےمتعلق میری چھوٹی جواں بیٹی سرانجام دےرہی ہے۔

جناب یہ واضح کردوں کہ میری اہلیہ کی وفات سےتقریباً تین ماہ قبل میرےانہی داماد نےہمارے دوست بنام محمد اعظم شیخ (لوہار)سےکہاتھاکہ یار!اعظم ابھی تومیری ساس حیات ہے،اگر خدانخواستہ ان کاانتقال ہوجائےگا،تواس اپنی بیٹی انکےگھرسےاپنےگھرلےآؤں گا۔یہ بات اعظم نےمجھے میری اہلیہ کی وفات کےتیسرےروزبتائی،میں نےاسےکہامیرےدامادسےکہو وہ اپنی بچی لےجائے۔اعظم نےآٹھ،دس دن بعدمجھےجواب دیاکہ وہ اپنی بیٹی نہیں لےکرجائیگا،میں نےاعظم سےکہاکہ اس سےکہوکہ اگر وہ اپنی بیٹی نہیں لےجارہاہےتووہ اس بچی پرآنےوالےاخراجات کی رقم کسی بھی ذرائع سےہمیں پہنچائے یابچی کےاستعمال میں آنے والی ادویات مع پیمپر(ڈائپرز)ماہانہ کےحساب سےپہنچادے،جب تک اورجہاں تک اس بچی (یعنی میری نواسی)کی خدمت ہم سےہوسکی ہم نےکی،ہم حسب معمول کرتےرہیں گے،آگےرب کی مرضی،مگردوست اعظم کے بقول کہ داماد نےایساکرنےسےبھی صاف انکارکردیا،لیکن جب مستقبل میں بیٹی بیاہ کراپنے گھرچلی جائےگی تومجھےنواسی کی دیکھ بھال کےلیےایک عدد آیاکی خدمات حاصل کرناضروری ہوگا۔اب ایسی صورت میں جناب سےیہ معلوم کرنا چاہوں گا:

الف:کہ اگر میرایہ داماد اپنی بیٹی کو اپنےگھر نہ لےجائے،توکیا میں داماد سےاس بچی پراٹھنےوالے مصارف وغیرہ لینےکاحق شرعی طورسےلےسکتاہوں؟

ب:آیارکھنےکی صورت میں جواخراجات ہونگےوہ لینےکاداماد سےتقاضا شرعاًکرسکتاہوں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسؤلہ میں شرعاًبچی کےوالد(آپ کےداماد)کےلیےضروری ہےکہ وہ اپنی بیٹی کولےجائےاور پھر خادمہ یا کسی رشتہ دارخاتون کےذریعےاپنی بچی کی دیکھ بھال کاانتظام کرے،البتہ اگروالد(آپ کاداماد) اپنی بیٹی کو نہیں لےکرجاتا،توان پرشرعاًیہ لازم ہےکہ وہ اپنی بیٹی پرآنےوالےہرقسم(علاج معالجہ،روزمرہ کی ضروریات، آیارکھنے)کےاخراجات برداشت کرے،اور شرعاً آپ کےلیےبھی جائزہےکہ آپ اپنےداماد سےان کی بیٹی پرآنے والےاخراجات(مثلاًعلاج معالجہ،روزمرہ کی ضروریات،اورخادمہ رکھنےکی اجرت) کا مطالبہ کریں۔

حوالہ جات
(فی القرآن الکریم)
وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن بالمعروف لا تكلف نفس إلا وسعها (البقرة 233)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 614)
(وكذا) تجب(النفقۃ) (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقا وزمن ومن يلحقه العار بالتكسب وطالب علم لا يتفرغ لذلك، كذا في الزيلعي والعيني.
الفتاوى الهندية (1/ 562)
وبعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب وتدفع إلى الأم حتى تنفق على الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقة تدفع إلى غيرها لينفق على الولد.۔۔۔وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل، أو خدمة كذا في الخلاصة۔۔۔ ولا يجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزا عن الكسب لزمانة، أو مرض ومن يقدر على العمل لكن لا يحسن العمل فهو بمنزلة العاجز كذا في فتاوى قاضي خان. .

محمدعمربن حسین احمد

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 5جمادی الاخری 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر ولد حسین احمد

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب