021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسٹورپرمال فروخت کرنےکی شرائط کاشرعی جائزہ
75453خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

ہماری کمپنی مختلف سپراسٹورز میں اپنامال فروخت کرناچاہتی ہے،چونکہ سپراسٹورمیں بہت سارےلوگ خریداری کےلیےایک جگہ جمع ہوجاتےہیں،توضمناًبہت ساری چیزوں کی نمائش بھی ہوجاتی ہےجس نمائش کےلیےاگر علیحدہ سےمعاملہ کیاجائےتوبھاری رقم اداکرنی پڑے،اس لیےاکثر تاجرچاہتےہیں کہ ان کامال سپراسٹورمیں دستیاب رہے،تاکہ زیادہ سےزیادہ نمازئش بھی ہوسکے۔

سپراسٹوروالےمختلف کمپنیوں سےان کامال ادھارپرخریدتےہیں،اوراپنامنافع شامل کرکےاپنےسپر اسٹور میں فروخت کردیتےہیں،لیکن اسٹوروالےکمپنیوں سےمعاہدہ چندشرائط کی بنیادپرکرتےہیں جوکہ درج ذیل ہیں:

  1. اسٹورکواپنامال فروخت کرنےکےکام شروع کرنےکےلیےابتدائی طورپر مخصوص رقم اداکرنی ہوگی جوکہ ناقابل واپسی ہوگی،جس کو ان کی اصطلاح میں Induction Fee/Key Money کہا جاتاہے۔
  2. جتنی قسم کامال فروخت کرناچاہیں گے،کمپنی کوہرایک قسم کی چیزکےلیےمخصوص رقم کی ادائیگی کرنی ہوگی،جیسےایک کمپنی کےبسکٹ فروخٹ کرتی ہےاورٹافیاں بھی بناتی ہے،تودوالگ الگ فیس کی ادائیگی کرنی ہوگی،اسی طرح اگرچائےکی پتی بھی متعارف کروائےاورفروخت کرناچاہےتواسٹوروالے الگ فیس وصول کرتےہیں،جس کوPer Product Induction کہاجاتاہے۔
  3. سپر اسٹوروالےجس الماری میں یاجس جگہ مال رکھتےہیں اس الماری کاماہانہ طےشدہ کرایہ بھی وصول کرتےہیں۔
  4. جب بھی ان کو اپنی نئی برانچ کھولنی ہوگی، اس کےلیےبھی مخصوص رقم وصول کی جائیگی۔
  5. سال میں ایک مرتبہ سپراسٹوروالےعوام کےلیےتحائف کی مدمیں بھاری رقم یاتحائف کابھی مطالبہ کرتےہیں۔
  6. Shelf Bin كےنام سےمخصوص قسم کاڈبہ ہوتاجس میں کمپنی سےخریداہوامال اسٹوروالےرکھتے ہیں،اس کاخرچہ بھی کمپنی کےذمہ لگایاجاتاہے۔
  7. ایک شرط یہ بھی ہوتی ہےکہ اگرمال فروخت نہ ہوسکاتوکمپنی کووہ مال واپس لیناہوگا۔

نوٹ:ان تمام شرائط کامعاملہ براہ راست سپراسٹورکےمالکان اورکمپنی کےمالکان کےدرمیان ہی طےپاتاہے، کمپنی ان تمام شرائط پراس لیےبھی رضامندہوجاتی ہےکہ ایک تومال ایک ہی خریدار(سپراسٹور والے)بڑی مقدارمیں خرید

لیتےہیں،اورساتھ ساتھ نمائش بھی ہوجاتی ہےاوراسی بنیادپراسٹوروالےمختلف طریقوں سےرقم وصول کرتےہیں۔

سوالات:

  1. کیا سپراسٹورزوالوں کا Induction Fee/Key Money لیناجائزہوگاجبکہ وہ خودخریدارہوتے ہیں؟
  2. جتنی قسم کی اشیاء بیچناچاہیں ان کی تعدادکےلحاظ سےرقم وصول کرنااسٹوروالوں کاکیساہے؟
  3. کیا اسٹوروالوں کاالماری کاکرایہ وصول کرناجائزہوگاجبکہ وہ مال خریدکراپنےہی اسٹورمیں فروخت کرتےہیں؟
  4. نئےاسٹورکھولنےپررقم کامطالبہ کرناجائزہوگا؟
  5. اسی طرح تحائف  دینےکےلیےرقم کامطالبہ کرناجائزہوگا؟
  6. Shelf Binکاکمپنی سےمطالبہ کرناکیساہے؟
  7. کیایہ شرط لگاناجائزہوگاکہ اگرمال فروخت نہ ہواتومال واپس کردیاجائیگا؟کمپنی والےراضی ہویانہ ہودونوں صورتوں میں کیاحکم ہے؟
  8. کیا ہماری کمپنی کاان تمام شرائط کےساتھ معاملہ کرناجائزہوگا؟اگر کمپنی ان تمام شرائط پررضامند بھی ہو۔
  9. اگرایسامعاملہ کیاگیاتوآخرت کےلحاظ سےکوئی سزاتونہیں ملےگی؟درخواست ہےتفصیلی جواب مرحمت فرمائیں،اور اگریہ معاملہ ٹھیک نہ ہوتو متبادل راستہ بھی تجویزفرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خریدوفروخت کے معاملےمیں کوئی ایسی اضافی شرط لگانا جس سےخریدار،یافروخت کنندہ کوایسا فائدہ پہنچےجس کاخریدوفروخت کامعاملہ تقاضا نہ کرتاہواورنہ ہی وہ شرط خریدوفروخت کےمعاملےکےمناسب ہو اوروہ شرط تاجروں کےہاں معروف بھی نہ ہو،تواس قسم کی شرائط لگانےسےخریدوفروخت کامعاملہ فاسد ہوجاتاہے،شرعاًعاقدین میں سےہرایک پراس عقد کوختم کرنالازم ہے،چاہےقبضہ سےپہلےہویاقبضہ کےبعد۔

اس تمہیدکےبعدبالترتیب سوالات کےجوابات درج ذیل ہیں:

  1. خریدارکےلیےخریدی ہوئی چیزکوفروخت کرنےکےلیےالگ سے(Induction Fee)لیناجائز نہیں ہے،کیونکہ خریدوفروخت کامعاملےمکمل ہونےکےبعدالگ سےمزیدفیس وصول کرنے کی کوئی شرعی وجہ نہیں بنتی۔
  2. اسٹوروالوں کاکمپنی سےاشیاءخریدنےکےبعدان کوفروخت کرنےکےلیےکمپنی سےکسی قسم کی فیس وصول کرناجائز نہیں ہے،البتہ بغیرشرط کےکمپنی اپنی رضامندی سےبطورانعام کےکوئی رقم اسٹور والوں کودیں،توجائزہے۔
  3. اسٹوروالوں کاکمپنی سےالماری کاکرایہ وصول کرنابھی جائزنہیں ہے،کمپنی سےخریدوفروخت کے معاملےکےمکمل ہونےکےبعداسٹوروالوں کےذمہ ہےکہ وہ اپنےمال کوجس طرح چاہیں فروخت کرے۔
  4. مزیدنئےاسٹورکھولنا،اسٹوروالوں کی اپنی مرضی ہے،کمپنی سےاسٹورکھولنےکی رقم وصول کرنا  بھی جائزنہیں ہے،البتہ اگرکمپنی بطورتعاون کےاپنی مرضی سےکچھ رقم بغیرکسی شرط کےدےتو جائزہے۔
  5. اسٹوروالوں کاکمپنی سےاپنےکسٹمرکوتحائف دینےکےلیےرقم کامطالبہ کرنابھی جائزنہیں ہے، کیوں کہ خریدوفروخت کےمعاملےکےمکمل ہونےکےبعدکمپنی والوں پرمزیدرقم لازم کرنا شرعاًجائزنہیں ہے،البتہ اگرکمپنی اپنی رضامندی سےبغیرکسی شرط کےکچھ رقم کسٹمر کے درمیان تقسیم کرنے کےلیےاسٹوروالوں کودےدےتوجائزہے۔
  6. کمپنی سےخریدوفروخت کامعاملہ مکمل ہونےکےبعدخریدی ہوئی چیزکی حفاظت اسٹوروالوں کےذمہ ہے،اس کی حفاظت کی فیس کمپنی سےوصول کرناجائزنہیں ہے،البتہ اگرکمپنی بغیرکسی شرط کے اپنی رضامندی سےکچھ رقم اسٹوروالوں کودےتوجائزہے۔
  7. اسٹوروالوں کایہ شرط لگاناکہ اگرمال نہ بکاتوکمپنی کوواپس لیناہوگا،یہ شرط فاسدہے،جوکہ شرعاً جائزنہیں ہے،لیکن اس قسم کی شرط کاآجکل عرف اورغیرمفضی الی النزاع(یعنی جھگڑےکا سبب نہ)ہونےکی وجہ سےاگرچہ گنجائش ہے،لیکن اس کی بےغبارصورت یہ ہےکہ عقدمکمل ہونے کےبعدآپس میں وعدہ کرلےکہ اگرمال نہ بکاتوکمپنی واپس لےگی،کمپنی پراس وعدہ کوپوراکرنا دیانۃًلازم ہے،جوفروخت کنندہ(کمپنی)کی طرف سےاحسان ہوگا،دوسری صورت یہ کہ اسٹوروالے سامان خریدتےوقت ایک مدت طےکرلیں کہ مثلاًایک مہینہ یا تین مہینےتک مجھے مال واپس کرنےکا اختیار(خیارشرط)ہوگا،اگرمال نہ بک سکاتوواپس کردوں گا۔
  8. کمپنی کااسٹوروالوں سےان تمام شرائط کےساتھ معاملہ کرناغیرشرعی شرائط پرمشتمل ہونے کی وجہ سےجائزنہیں ہے۔
  9. ایسامعاملہ کرنےوالاشرعاًگناہگارہوگا۔

البتہ اس عقدکی متبادل صورت یہ ہےکہ کمپنی والےاسٹوروالےکومال فروخت نہ کرے،بلکہ کمپنی والےاسٹور والوں کواپنی اشیاء فروخت کرنےکا وکیل بنادے،اورہرپروڈکٹ پراسٹوروالوں سےفی یونٹ کےحساب سےکچھ کمیشن طےکرلیں،اس متبادل کےپیش نظرسوال کےابتداءمیں مذکورشرائط کےمتبادل درج ذیل ہیں:

  1. Induction FeeاورPer Product Induction کی فیس کی جگہ ہرپروڈکٹ میں کمیشن ایک خاص تناسب سےمقررکیاجائے،جس میں یہ دونوں قسم کی  فیس بھی وصول ہوجائے۔
  2. اسٹوروالوں کاالماری اور(Shelf Bin)کی فیس وصول کرناجائزہے،جیسےوکیل کےلیےسامان فروخت کرنےکےلیےآنےوالےاخراجات وصول کرناجائزہے۔
  3. اسٹوروالوں کاتحفہ دینےکی مدمیں کمپنی سےبطورشرط کےکوئی رقم لینا جائزنہیں ہے،کیونکہ وکیل کےلیےیہ جائزنہیں کہ مؤکل(وکیل بنانےوالے)پرکسی کوتحفہ دینےکےلیےزبردستی رقم وصول کرے،البتہ کمپنی والےاپنی مرضی سےکچھ رقم اپنےکسٹمرکودینےکےلیےاپنی رضامندی سے اداکریں تواسٹوروالوں کےلیےوصول کرناجائزہے۔
  4. نئےاسٹورکھولنےکی مدمیں کمپنی سےبطورشرط کےرقم لیناتوجائزنہیں ہے،البتہ اگرنئےاسٹور میں کمپنی کےسامان رکھنےاورالماری وغیرہ کی فیس وصول کرےتوجائزہے۔
  5. مال فروخت نہ ہونےپرواپس لینےکی شرط یہاں پربنتی ہی نہیں ہے،کیوں کہ اسٹوروالاکمپنی کاوکیل ہے،اگرمال فروخت ہوتاہےتووہ کمپنی کاہوگا،اوراگرفروخت نہیں ہوتاتووہ بھی کمپنی کاشمار ہوگا۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 84)
فی الدرر: (و) لا (بيع بشرط) عطف على إلى النيروز يعني الأصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط (لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا، فلو لم يكن كشرط أن لا يركب الدابة المبيعة لم يكن مفسدا كما سيجيء (ولم يجر العرف به و) لم (يرد الشرع بجوازه) أما لو جرى العرف به كبيع نعل مع شرط تشريكه، أو ورد الشرع به كخيار شرط فلا فساد۔
وفی حاشیتہ:(قوله ولا بيع بشرط) شروع في الفساد الواقع في العقد بسبب الشرط «لنهيه - صلى الله عليه وسلم - عن بيع وشرط» ، لكن ليس كل شرط يفسد البيع نهر. وأشار بقوله بشرط إلى أنه لا بد من كونه مقارنا للعقد؛ لأن الشرط الفاسد لو التحق بعد العقد، قيل يلتحق عند أبي حنيفة، وقيل: لا وهو الأصح كما في جامع الفصولين لكن في الأصل أنه يلتحق عند أبي حنيفة وإن كان الإلحاق بعد الافتراق عن المجلس، وتمامه في البحر. قلت: هذه الرواية الأخرى عن أبي حنيفة وقد علمت تصحيح مقابلها، وهي قولهما ويؤيده ما قدمه المصنف تبعا للهداية وغيرها، من أنه لو باع مطلقا عن هذه الآجال ثم أجل الثمن إليها صح فإنه في حكم الشرط الفاسد كما أشرنا إليه هناك ثم ذكر في البحر أنه لو أخرجه مخرج الوعد لم يفسد. وصورته كما في الولوالجية قال اشتر حتى أبني الحوائط اهـ.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (6/ 8)
وإن ذكرا البيع بلا شرط ثم شرطاه على وجه المواعدة جاز البيع ولزم الوفاء وقد يلزم الوعد لحاجة الناس فرارا من الربا فبلخ اعتادوا الدين والإجارة وهي لا تصح في الكروم وبخارى الإجارة الطويلة ولا يكون ذلك في الأشجار فاضطروا إلى بيعها وفاء وما ضاق على الناس أمر إلا اتسع حكمه وقد نص في غريب الرواية عن الإمام أن البيع لا يكون تلجئة حتى ينص عليها في العقد وهي والوفاء واحد الرابع ما قاله في العدة واختاره ظهير الدين أنه بيع فاسد ولو ألحقاه بالبيع التحق وأفسده ولو بعد المجلس على الصحيح ولو شرطاه ثم عقدا مطلقا إن لم يقرا بالبناء على الأول فالعقد جائز ولا عبرة بالسابق كما في التلجئة عند الإمام۔
البناية شرح الهداية (8/ 54)
والبيع بشرط الإقالة الصحيحة باطل فبشرط الإقالة الفاسدة أولى.
(فقہ البیوع 1/504)
البيع بشرط وجود من يشتريه من المشترى :
وهناك طريق متبع في الأسواق أن من يريد أن يبيع أشياء إلى تاجر تلك الأشياء ، فإن التاجر لا يقبل أن يشتري منه فوراً ، بل يقول له : إنى أقبل أن تضعها عندى على أني إن وجدت مشترياً لها ، اشتريتها منك . ولواعتبر العقد بينهما عقد بيع مشروط بأن يجد المشترى مشترياً آخر منه ، ففيه عدة محظورات من الناحية الشرعية . منها أنه بيع بشرط مخالف لمقتضى العقد ، أو بيع معلق على شرط . ولكن هناك طريقان للوصول إلى هذا الغرض : الأول : أن يعير تلك الأشياء إلى التاجر ، ويجعله سمساراً لبيعها إلى المشترين لقاء عمولة يدفعها إلى التاجر . والثاني : أن بشتري التاجر منه تلك الأشياء بخيار شرط إلى مدة متفق عليها . فإن وجد مشترياً ، باعها إليه ، وينفذ به البيع الأول . وإن لم يجد مشترياً خلال المدة ، ردها إلى البائع الأول بخيار الشرط .
مجلة الأحكام العدلية (ص: 285)
المادة (1467) إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة , وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة.
(المعاییرالشرعیۃ 1/415،622)
وقد قرر جمهور الفقهاء جواز أخذالأجر على الوكالة۔
الوكالة بأجر:
١ يصح أن تكون الوكالة بأجر، وذلك بالنص أو بمقتضى العرف، مثل توكيل من عرف أنه لا يعمل إلا بأجر. يجب أن تكون الأجرة معلومة، إما بمبلغ مقطوع أو بنسبۃمن مبلغ معلوم، أو يؤول إلى العلم مثل أن تكون الأجرة عندابتداء التوكيل معلومة وتربط بمؤشر يرجع إليه عند بداية كل فترة. ولا يجوز عدم تحديدها، مثل اقتطاع الوكيل أجرته غير المحددة من مستحقات الموكل.

 محمدعمربن حسین احمد

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 16جمادی الثانیۃ 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر ولد حسین احمد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب