021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
یتیم پوتیوں کو دادا کی میراث میں حصہ ملے گا یا نہیں؟
75564میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہم کل آٹھ بہن بھائی تھے جن میں تین بہنیں اور پانچ بھائی تھے۔ ایک بھائی کا انتقال 1989ء میں ہوا، دوسرے بھائی جن کا نام محمد جاوید تھا، ان کا انتقال 12 مئی 2007ء کو ہوا، ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ والد صاحب کا انتقال مئی 2009ء میں ہوا تھا۔ تیسرے بھائی محمود طارق کا انتقال ابھی مئی 2021ء میں ہوا ہے، ان کی بیوہ ہے، لیکن اولاد کوئی نہیں ہے۔ والدہ کا انتقال بھی والد صاحب کے انتقال سے پہلے 2002ء میں ہوگیا تھا۔ والد صاحب کے والدین، دادا، دادی اور نانی کا انتقال بھی ان کی زندگی میں ہوگیا تھا۔  طارق محمود صاحب کے والدین، دادا، دادی اور نانی کا انتقال بھی ان کی زندگی میں ہوگیا تھا۔

اب ہم دو بھائی اور تین بہنیں حیات ہیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ وہ بھائی جن کا انتقال والد صاحب کی حیات میں ہوگیا تھا اور ان کی دو بیٹیاں ہیں، ان کا وراثت میں کیا حصہ ہوگا؟ ہم انہیں بھی حصہ دینا چاہتے ہیں۔ ہم نے جو ابھی اپنا گھر فروخت کیا ہے وہ 7,500,000 میں فروخت کیا ہے، اسی مالیت میں سے سب بہن بھائیوں کے حصے ادا کرنے ہیں، تاکہ کسی کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی نہ ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے جن دو بھائیوں کا انتقال آپ کے والد صاحب سے پہلے ہوا تھا، وہ آپ کے والد صاحب کے ورثا میں داخل نہیں؛ کیونکہ میراث ان لوگوں میں تقسیم ہوتی ہے جو مورِث کے انتقال کے وقت زندہ ہوں۔ اسی طرح والد صاحب سے پہلے انتقال کرنے والے  بھائی محمد جاوید کی بیوہ اور بیٹیاں بھی آپ کے والد صاحب کے ترکہ میں بطورِ وارث حصے کی حق دار نہیں۔ تاہم اگر ورثا اپنی رضامندی سے انہیں کچھ نہ کچھ دیں گے تو انہیں اس کا ثواب ملے گا، صلہ رحمی کا تقاضا بھی یہی ہے۔ لہٰذا تمام ورثا باہمی رضامندی سے ان کو جتنا جتنا حصہ دینا چاہتے ہیں، اتنا حصہ ان کو دے سکتے ہیں۔

البتہ والد صاحب کے بعد انتقال کرنے والے بھائی محمود طارق کو والد صاحب کے ترکہ میں حصہ ملے گا، اس کا حصہ پھر اس کے ورثا پر تقسیم ہوگا۔

لہٰذا حقوقِ متقدمہ علی الارث (والد صاحب کی تجہیز و تکفین کے اخراجات ہونے کی صورت میں ان اخراجات کی ادائیگی، قرض ہونے کی صورت میں قرض کی ادائیگی، اور کوئی جائز وصیت ہونے کی صورت میں قرض کے بعد بچ جانے والے مال کے ایک تہائی حصے کی حد تک وصیت پوری کرنے) ہونے کی صورت میں ان کی ادائیگی کے بعد بچ جانے والے مال کو، اور حقوقِ متقدمہ علی الارث نہ ہونے کی صورت میں تمام مال (یعنی اس گھر کی قیمت سمیت ان کی ہر چھوٹی بڑی ملکیت) کو نو (9) حصوں میں تقسیم کر کے تین (طارق محمود اور دو آپ زندہ) بھائیوں میں سے ہر ایک کو دو، دو (2، 2) حصے، اور تین بہنوں میں سے ہر ایک کو ایک، ایک (1، 1) حصہ دیا جائے۔

پھر طارق محمود کو والد صاحب کی میراث سے ملنے والے حصے کو اٹھائیس (28) حصوں میں تقسیم کر کے سات (7) حصے اس کی بیوہ کو، چھ، چھ (6، 6) حصے آپ دو بھائیوں میں سے ہر ایک کو، اور تین، تین (3، 3) حصے تین بہنوں میں سے ہر ایک کو ملیں گے۔ طارق محمود کے بقیہ ترکہ کو بھی اسی طریقے پر تقسیم کیا جائے گا۔ البتہ اگر حقوقِ متقدمہ علی الارث (جس کی تفصیل اوپر گذرچکی ہے) میں سے کوئی حق ہوگا تو پھر پہلے اس کی ادائیگی ہوگی، اس کے بعد بقیہ ترکہ ورثا میں اس طریقے کے مطابق تقسیم ہوگا۔

حوالہ جات
۔

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

21/جمادی الآخرۃ /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب