021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کاحکم
75652طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

مفتی صاحب میرانام ثمینہ ہےاورمیرےشوہرکانام کامران ہے،پچھلے چارماہ سےہمارےدرمیان معمولی بات پر جھگڑاہوجاتاہےجس کےدوران مجھےطلاق کی دھمکی دی جاتی ہےجسکےالفاظ "میں فیصلہ کرچکاہوں " "میں اسے چھوڑ دوں گا" "رک جاابھی تیراکام کرتاہوں " ہوتےہیں ۔میری امی کوکال کرکےبولا"دومنٹ یہیں آجاو میں اسےطلاق دےرہاہوں "،یہی بات میرےبہنوئی سےکہی اوریہی میرےبھائی کوفون کرکےکہا، مجھےباربار گھرسے لے جانے کو کہااسےلےجاو یہاں سےمیں اس کافیصلہ کردوں گابعدمیں اس پرمیں نےکہاپہلےفیصلہ کروپھرمیں جاوں گی ۔

کئی بارگھرسےنکال چکےہیں، اب دوماہ سےمیں اپنےمیکےمیں ہوں، اب پھرخاندان والےہماری صلح کراناچاہتے ہیں، آپ ہماری رہنمائی فرمادیجئےکہ نکاح برقرارہےیانہیں۔جبکہ خاندان والوں کویہ کہاجارہاہےکہ میں اسےنہیں چھوڑوں گاکبھی بھی ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں آپ نےجوشوہرکےالفاظ نقل کیےہیں،یہ دھمکی آمیزجملےہیں اورمستقبل میں طلاق دینے پرمشتمل ہیں،لہذاان الفاظ سےطلاق واقع نہیں ہوتی،البتہ شوہرکےالفاظ "دومنٹ یہاں آجاومیں اسےطلاق دےرہا ہوں"میں انشاءطلاق کابھی احتمال موجودہے،جس کامطلب یہ ہےکہ اگران الفاظ سےشوہرکی نیت طلاق کی تھی، یاکوئی نیت نہیں تھی توان سےایک طلاق واقع ہوگئی ہے،اوراگرشوہرکی نیت ارادہ طلاق کااظہارتھا(جیساکہ ان الفاظ میں اس کابھی احتمال ہےموجودہے)توایسےمیں کوئی طلاق نہیں ہوئی،اورآپ دونوں میاں بیوی کانکاح برقرار ہے، باقی یہ کہ آپ کے شوہرآپ کےساتھ بارباربراسلوک کرتےہیں اورگھرسےنکال دیتےہیں اور اس دفعہ بھی آپ کو گھرسےنکال چکےہیں،لیکن خاندان والےاس باربھی صلح کرواناچاہتےہیں تواگرآپ کویقین ہےکہ آپ کےجانے سےوہ آپ کےساتھ اچھارویہ رکھیں گےاور طلاق تک نوبت  نہیں جائےگی توآپ جاسکتی ہیں،لیکن اگر غالب گمان یہ ہےکہ آپ کےجانے سے وہ مارپیٹ اوربراسلوک کریں گے،اوربالآخرطلاق ہونےکاہی خطرہ ہےتوپھرآپ جانے میں احتیاط کریں اوران کےلیےدعاکریں  تاکہ وہ خوداصراراورمحبت سےآپ کواپنے گھربلائیں۔

حوالہ جات
«المحيط البرهاني في الفقه النعماني» (3/ 472):
فقال الزوج: طلاق مي كنم طلاق مي كتم طلاق مي كنم؟ أجاب وقال: بأنها تطلق ثلاثا؛ لأن قوله:
طلاق مي كنم للمحض للحال وهو تحقيق بخلاف قوله: كنم؛ لأنه تمحض للاستقبال وهو
(291أ1) وعد، وبالعربية قوله: ‌أطلق، ‌لا ‌يكون ‌طلاقا في أنه دائر بين الحال والاستقبال فلم يكن
تحقيقا مع الشك.
«تحفة الفقهاء» (2/ 182):
وإن كان لفظا لا يصلح للطلاق فإنه لا يقع به الطلاق وإن نوى لأن الطلاق يقع باللفظ لا بالنية كقوله اسقني واقعدي وأعرضت عن طلاقك وصفحت عن فراقك وتركت طلاقك وخليت سبيل طلاقك ونحو ذلك.
«الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية» (1/ 384):
قالت لزوجها من باتو نميباشم فقال الزوج مباش فقالت طلاق بدست تو است مرا طلاق كن فقال الزوج طلاق ميكنم طلاق ميكنم وكرر ثلاثا طلقت ثلاثا بخلاف قوله كنم لأنه استقبال فلم يكن تحقيقا بالتشكيك.

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۲۲جمادی الثانیہ ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب