021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ملازم کا اپنی ڈیوٹی پر کسی اورکو بھیج کرتنخواہ لینا
75647اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

 کیافرماتےہیں علماءدین،اس مسئلہ کےبارےمیں  کہ ایک آدمی سرکاری ملازم تھا، جس کوکوئی مجبوری کاکام پڑ گیا، جس کی وجہ سےوہ اس کام کیلئےچلاگیااوراپنی ڈیوٹی کےکام کےلیےدوسراآدمی چھوڑگیا،وہ کام کرتاتھالیکن خودبھی ہفتہ  میں ایک دوبار آکراپناڈیوٹی والاکام کرتاتھااوراب وہ 30سال سےریٹائرڈہوگیاہے۔اب اس کاکیاحکم ہے؟

وضاحت ازمستفتی :میں سرکاری ملازم تھا،ملازمت کےدوران میں پڑھائی کےلیےچلاگیاتھااورملازمت چھوڑنےکی بجائےمیں اپنی جگہ کسی اورکوبھیجتارہا،وہ میرےذمہ کا کام بخوبی سرانجام دیتارہا،جبکہ میں  خودبھی ہفتہ میں ایک دوبار آکراپنی ڈیوٹی کرتاتھا،اب سوال یہ ہےکہ اس دوران میں نےجوتنخواہیں لی ہیں،ان کا کیاحکم ہے؟وہ میرےلیےحلال ہیں یاحرام؟ اگرحرام  ہیں تواس  مسئلےکاکیاحل ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مذکورہ میں اگرآپ کوادارےکےقانون اورضابطہ میں یاادارےکےمجازبااختیارذمہ داران کی طرف سےاس بات کی اجازت تھی کہ آپ اپناکام کسی اورسےکراسکتےہیں اوروہ کام بھی اس نوعیت کاتھاکہ دوسراشخص اس کےکرنےکا اہل تھا،توآپ کےلیےتنخواہ لیناجائزتھا،البتہ اس کےبرخلاف اگراجازت نہیں تھی یا دوسراشخص اس کام کااہل نہیں تھاتوپھرآپ کےلیےتنخواہ وصول کرناناجائزاورحرام تھا۔

لہذادوسری  صورت کےمطابق اگرآپ  کوادارےکےقانون اورضابطہ میں یاادارےکےمجازبااختیارذمہ داران کی طرف سےکسی اورسےکام کرانےکی  اجازت نہیں تھی، بلکہ آپ چپکےسےاپنی جگہ کسی اورکوبھیجتےرہےتو یہ خیانت تھی لہذاجورقم آپ کوتنخواہ کی مدمیں موصول ہوئی وہ حرام تھی ،اورحرام  مال کاحکم یہ ہےکہ جس سےحاصل ہوا ہواسی کوواپس کرناضروری ہوتاہے،البتہ اگرواپس کرناممکن نہ ہو توثواب کی نیت کیےبغیرغریب مسکین لوگوں کو صدقہ کرنا لازم ہوتاہے،اگربیک وقت  صدقہ کرنامشکل ہوتواسکی بھی گنجائش ہےکہ اس مکمل رقم کاحساب کرکےلکھ لیں اور پھرحسب استطاعت تھوڑاتھوڑاکرکےصدقہ کرتےرہیں ،یہاں تک کہ حرام رقم پوری  کی پوری صدقہ ہو جائے۔

حوالہ جات
«تفسير الماتريدي = تأويلات أهل السنة» (2/ 200):
بقوله تعالى: (‌إن ‌الله ‌يأمركم ‌أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها)، ولو كان لا يخرج إلا بإدخال في الأيدي
في الحقيقة، لكان لا سبيل إلى القيام بما كلف الله تعالى. وعلى ذلك إجماع القول في الإجارات إذا أمكن الانتفاع بها. والله أعلم
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 18):
(‌وإذا ‌شرط ‌عمله ‌بنفسه) بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك (لا يستعمل غيره إلا الظئر فلها استعمال غيرها) بشرط وغيره خلاصة (وإن أطلق كان له) أي للأجير أن يستأجر غيره، أفاد بالاستئجار أنه لو دفع لأجنبي ضمن الأول
«مجلة الأحكام العدلية» (ص106):
(المادة 571) ‌الأجير ‌الذي ‌استؤجر ‌على ‌أن ‌يعمل ‌بنفسه ليس له أن يستعمل غيره مثلا لو أعطى أحد جبة لخياط على أن يخيطها بنفسه بكذا دراهم ، فليس للخياط أن يخيطها بغيره وإن خاطها بغيره وتلفت فهو ضامن.(المادة 572) لو أطلق العقد حين الاستئجار فللأجير أن يستعمل غيره
«مجلة مجمع الفقه الإسلامي» (4/ 520 بترقيم الشاملة آليا):
أما ‌المال ‌الحرام كالمغصوب والمسروق ومال الرشوة والتزوير والاحتكار والغش والربا ونحوها، فلا زكاة فيه؛ لأنه غير مملوك لحائزه، ويجب رده لصاحبه الحقيقي؛ منعا من أكل الأموال بالباطل، فإن بقي في حوزة حائزه وحال عليه الحول، ولم يرد لصاحبه، فتجب فيه زكاته؛ رعاية لمصالح الفقراء

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۲۲جمادی الثانیہ ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب