021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سودکی رقم بطورصدقہ رشتےداروں کودینا
75648زکوة کابیانصدقات واجبہ و نافلہ کا بیان

سوال

کیافرماتےہیں علماءکرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ میرےپاس سودکی رقم موجودہے،اورمیں اس رقم سے اپنے رشتہ دارجوکہ غریب ہیں،ان کوہرماہ کچھ سامان وغیرہ لیکردیتاہوں، کیاایسی رقم سےبہن کوکپڑےیااورچیزیں لیکردینا صحیح ہے یانہیں؟چونکہ میری ملکیت سےنکلنےکےلیےکوئی اورراستہ نہیں ہےلہذابہن کو یہ رقم دےسکتاہوں یانہیں؟

اسی طرح کوئی شخص ملازم ہو، اوراس کی بیٹیاں ہوں توان کوسودکی  رقم سےکپڑےیاکوئی اورچیزیں لیکردیناکس طرح ہے ؟  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سودلینایادیناحرام ہے،اگرآپ کےپاس سودکی رقم آگئی ہےتویہ سودکاپیسہ اصل مالک کی طرف(یعنی جس سے

 آپ کوحاصل ہواہے )واپس کرناضروری ہےلیکن اگرکوشش کےباوجوداصل مالک کی طرف لوٹاناممکن نہ ہو

توثواب کی نیت کیےبغیرمستحقین زکوۃ پرصدقہ کرناضروری ہے،وہ آپ کےرشتےدارہوں یااورلوگ ہوں،اگروہ مستحق ہوں تو انہیں صدقہ کےطورپریہ رقم دےسکتےہیں۔مستحق بہن،بھائیوں پربھی صدقہ کرسکتےہیں ۔

رہایہ کہ کسی ملازم کی بیٹیوں پرصدقہ کرسکتےہیں یانہیں؟ تواگروہ  بچیاں بالغ ہیں اورمستحق زکوۃ ہیں یانابالغ ہیں اور ان کاوالد "صاحب  نصاب" نہیں ہےتوان کوبھی یہ صدقہ دیاجاسکتاہے ۔

حوالہ جات
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (5/ 187):
والحاصل أن الربا حرام
«مجلة مجمع الفقه الإسلامي» (4/ 520 بترقيم الشاملة آليا):
أما ‌المال ‌الحرام كالمغصوب والمسروق ومال الرشوة والتزوير والاحتكار والغش والربا ونحوها، فلا زكاة فيه؛ لأنه غير مملوك لحائزه، ويجب رده لصاحبه الحقيقي؛ منعا من أكل الأموال بالباطل.
«البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري» (2/ 262):
(قوله وأصله، وإن علا وفرعه، وإن سفل) بالجر أي لا يجوز الدفع إلى أبيه وجده، وإن علا، ولا إلى ولده وولد ولده، وإن سفل؛ لأن المنفعة لم تنقطع عن الملك من كل وجه كما قدمه في تعريف الزكاة؛ لأن الواجب عليه الإخراج عن ملكه رقبة ومنفعة، ولم يوجد في الأصول والفروع الإخراج عن ملكه منفعة وإن وجد رقبة، وفي عبده وجد الإخراج منفعة لا رقبة كذا في المستصفى، وفيه إشارة إلى أن هذا الحكم لا يخص الزكاة بل كل صدقة واجبة لا يجوز دفعها لهم كأحد الزوجين كالكفارات وصدقة الفطر والنذور، وقيد بأصله وفرعه؛ لأن من سواهم من القرابة يجوز الدفع لهم، وهو أولى لما فيه من الصلة مع الصدقة كالإخوة والأخوات والأعمام والعمات والأخوال والخالات الفقراء ولهذا قال في الفتاوى الظهيرية: يبدأ في الصدقات بالأقارب ثم الموالي ثم الجيران.

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۲۲جمادی الثانیہ ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب