021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بارہ گھروں پر مشتمل گاؤں میں جمعہ کی نماز کا حکم
79340نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

ہمارے گاؤں میں تقریباً بارہ گھر ہیں اور ہمارے ہاں ایک مسجد ہے،جس میں ان بارہ گھروں کے رہائشی پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں،لیکن اس مسجد میں جمعہ کی نماز نہیں،جبکہ ہمارے گاؤں میں ایک دکان ایسی موجود ہے جس میں ضرورت کا تمام سامان تقریبا ملتا ہے۔

یاد رہے کہ اس مسجد میں کبھی کبھار افراد نہ ہونے کی وجہ سے کسی ایک وقت کی نماز بالکل بھی چھوٹ جاتی ہے،یعنی نماز نہیں پڑھی جاتی۔

اب پوچھنا یہ تھا کہ کیا ہم اس مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جمعہ صرف شہر،شہر کے مضافات،قصبے یا ایسے بڑے گاؤں میں ہوسکتا ہے جہاں عام ضروریاتِ زندگی سب ملتی ہوں،مثلا وہاں بازار ہو(محض ایک دکان کا ہونا کافی نہیں)،سڑکیں ہوں،آبادی اتنی ہو کہ اسے قصبہ کہا جاسکے،حکومت کی طرف سے عدالت،تحصیل یا تھانہ ہو،غرض یہ کہ وہ اپنی خصوصیات میں شہر کے مشابہ ہو۔

اس لئے آپ نے اپنے گاؤں کی جو کیفیت ذکر کی ہے اس کے مطابق وہاں جمعہ کی نماز درست نہیں ہے۔

حوالہ جات
"بدائع الصنائع " (1/ 259):
"أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها .....
أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة، وفي رواية قال: إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصلي بهم الجمعة، وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها، وقال بعض أصحابنا: المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقال إلى حرفة أخرى، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة، وقال سفيان الثوري: المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة، وسئل أبو القاسم الصفار عن حد المصر الذي تجوز فيه الجمعة فقال: أن تكون لهم منعة لو جاءهم عدو قدروا على دفعه فحينئذ جاز أن يمصر وتمصره أن ينصب فيه حاكم عدل يجري فيه حكما من الأحكام، وهو أن يتقدم إليه خصمان فيحكم بينهما.
وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح.....

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

14/رجب1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے