021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شرعی قوانین کی یکسر تبدیلی کا عقیدہ رکھنا
75858ایمان وعقائدایمان و عقائد کے متفرق مسائل

سوال

گزارش ہے کہ میری اپنے شوہر کے ساتھ جو صورتحال چل رہی ہے اس کی تفصیل آپ کے سامنے رکھ کر جو مسائل اور خدشات پیدا  ہو رہے ہیں ان کے پیش نظر میں نے کچھ سوالات مرتب کیے ہیں،مہربانی فرماکر قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی  فرما کر مشکور فرمائیں۔

میں آج کل اپنے والد کے ساتھ پاکستان میں مقیم ہوں، میرے شوہر جو میرے حقیقی پھوپھی زاد ہیں اپنے والدین کے ساتھ برطانیہ کے رہائشی ہیں۔ تقریبا  پندرہ15/ سال پہلے میری شادی اپنے ان پھوپھی زاد سے ہوئی تھی، میرے شوہر شادی کے وقت ایک لمبی دماغی بیماری  سے گزر کر صحت یابی کی طرف آر ہے تھے۔

لیکن میں اور میرے والدین اس شادی کے وقت میرے شوہر کی اس پیچیدہ بیماری کی اصل صورتحال سے واقف نہ ہو سکے تھے اور میرے شوہر کے والدین کی طرف سے تسلی ، بھروسہ  اور اعتماد دلانےکی بنیاد پر کہ میرے شوہر تقریبا اس بیماری  سے صحت یاب ہو چکے ہیں،میری شادی کر دی گئی، میری عمر اس وقت تقریبا سترہ 17/سال اور میرے شوہر کی عمر  تقریبا ستائیس اٹھائیس 27-28/سال تھی۔

یہ شادی پاکستان میں ہی انجام پذیر ہوئی تھی،شادی کے پہلے ہفتے سےہی میرے شوہر نے مجھ سے عجیب و غریب باتیں شروع کر دی تھیں، جن سے لا محالہ مجھے اور میرے والدین کو سخت تشویش  اور فکر مندی شروع ہو گئی تھی، مثلا بقول میرے شوہر : ایک روشنی اور توجہ روحانی طور پر آپ ( یعنی بیوی) کے اوپر ڈالی گئی تھی، جس بنا پر مجھے آپ میں دلچسپی اور شادی کےلیے رغبت پیدا ہوگئی تھی، لیکن کیونکہ وہ روشنی اب آپ پر سے ہٹا کر خاندان کی متعدد خواتین سمیت دوسری کچھ اور خواتین کی جانب تبدیل ہو چکی ہے، لہذ ا مجھ میں اب آپ کے لیے کوئی رغبت نہیں ہے، اور پلٹ کر جب تک یہ روشنی آپ کی طرف نہیں آجاتی ، میں مجبور ہوں۔

میں نے اور میرے والدین نے اس صورتحال کو بیماری کا ہی کوئی جزء سمجھ کر نظر انداز کیااو ر کچھ عرصے کے بعد میں بھی ملک برطانیہ چلی گئی، لیکن یہ صورتحال آج پندرہ15/ سال گزرنےکے باوجود بھی نہ تو صرف یہ کہ بالکل تبدیل نہیں ہوپائی بلکہ اس میں کئی گنااور زیادہ خطرناک اضافہ ہو چکا ہے جس کی تفصیل آگے جا کر بیان کر وں گی۔

ان پندرہ 15/سالوں کے درمیان میں اپنے شوہر کے بغیر اپنے والدین سے ملنے پاکستان آتی رہی ہوں اور ہر دفعہ پاکستان آنے پر میں اپنے والدین کو ہر نئی پیدا شدہ صورتحال سے آگاہ کرتی رہی ہوں، اور نہ صرف یہ کہ میرے شوہر میری طرف بالکل رغبت نہیں رکھتے بلکہ میری شدید خواہش کےباوجود بھی وہ اولاد نہ ہو سکنے کے لیے عملی اجتناب بھی کرتے ہیں، میری شادی کو اب چند سال گزر چکے تھےلیکن یقینا مجھ سے اور میرے والدین سے یہ سخت غلطی ہوئی کہ ہم ان کی اس پیچیدہ بیماری کا اندازہ نہیں کرسکے اور صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی،اس /15پندرہ سال عرصے کے دوران ہم میاں ،بیوی کے دوران کسی بھی لحاظ سے ازدواجی تعلق مناسب نہیں رہا ہے۔

بہر حال میرے احتجاج اور زور دینے پر اللہ تعالی کی مہربانی شامل حال ہوئی اور میں اولاد کی امید سے ہوئی، اسی دوران مجھے اور میری ساس صاحبہ کو پاکستان آنا پڑا، جہاں میرے دیور کا نکاح طے ہو چکا تھا، یہاں پاکستان میں ہی میرے ہاں بچی کی پیدائش بھی ہوگئی، کچھ عرصہ تو میں نے پاکستان  میں رہنا ضرورتا مناسب سمجھالیکن کیونکہ میرے شوہر اپنی بیٹی سے ملنے تک بھی نہ آئے اور ٹیلیفون پر ان سے رابطہ سے  یہ اندازہ بھی بخوبی ہوتا رہا کہ وہ اپنے ان حالات و خیالات پر ابھی تک بدستور ویسے ہی قائم ہیں جن کی وجہ سے میں اب مسلسل پریشان اور بیماربھی رہنا شروع ہو چکی تھی اور اب واپس اپنے شوہر کے پاس نہ جانے میں یقینا حق بجانب تھی۔

چند قابل ذکر اہم نکات:

  1. میرے شوہر آج تک اس رائے پر قائم ہیں کہ ان کی یہ غیر معمولی صورتحال  تقریبا گزشتہ بیس پچیس20-25/ سال سے چل رہی ہے۔
  2. بقول میرے شوہر کے میرا روحانی علاج چل رہا ہے اور جب تک کامیابی سے یہ علاج مکمل نہیں ہو جاتا میں تمہاری طرف رغبت نہ کرنے پر مجبور ہوں اور یہ روشنی جو شادی سے پہلے تم پر ڈال کر مجھےتمہاری طرف راغب کیا گیا تھا اب وہ روشنی تم پر سے ہٹا کر اور دوسری خواتین کی جانب کر دی گئی ہے۔
  3. میرا روحانی علاج ( یعنی شوہر) میرے شیخ جو سائپرس(ایک ملک کا نام) میں مقیم تھےوہ کر رہے تھے،ا ب ان کا انتقال ہو چکا ہے اور ان کی جگہ اب یہ روحانی علاج ان کی بیٹی مزید دو خواتین کے ساتھ مل کر کر رہی ہیں اور جس میں سے ایک کا تعلق پاکستان سے بھی ہے۔( یہ خاتون جن کا میرے شوہر  نے ذکر کیا جو پاکستان میں ہیں وہ ہماری رشتہ دار بھی ہیں)۔میں اور میرے والدین پورے یقین اور ذمہ داری کےساتھ آپ کو بتا سکتے ہیں کہ نہ تو وہ اس قسم کی خاتون ہیں اور نہ ان کا اس قسم کے معاملات سے کوئی تعلق ہے ، وہ بیشک ایک اچھی اور نیک خاتون ہیں۔ نیز میرے شوہر ان خاتون کے بارے میں یہ بھی رائے رکھتے ہیں کہ یہ خاتون علاج کے ساتھ ساتھ یقینا میرا برا بھی چاہتی ہے اور میرے علاج کے ساتھ ساتھ اس علاج میں رکاوٹ بھی ہیں۔
  4. میرے شوہر کے مطابق بہت جلد انہیں ایک بڑا روحانی درجہ بھی ملنےوالا ہے، نیز موجود تمام شرعی 

قوانین بھی بدلنے والے ہیں اور میرے شوہر کے حرم ( نکاح ) میںان کی حقیقی خالہ،میرے شوہر کی ساس صاحبہ(یعنی میری والدہ)، میری چھوٹی ہمشیرہاور خاندان و غیر خاندان کی متعدد خواتین بھی شامل ہو جائیں گی، اور یہ سب اس وجہ سے ممکن ہو گا کہشرعی قوانین یکسر تبدیل ہو جائیں گے۔

  1. میرے شوہر کا یہ کہنا بھی ہے کہ اللہ نے ہی میرے ساتھ یہ سب کچھ برا کیاہے،اور وہ اللہ کے لیے اپنی فون کالز  کی گفتگو میں اکثر نازیبا الفاظ بھی استعمال کر تے رہے ہیں۔(نعوذ باللہ)

نوٹ: یہ چند موٹی موٹی باتیں آپ کےسامنے رکھ دی گئی ہیں، لیکن اس کےعلاوہ کافی باتیں ایسی بھی ہیں جو شرم و حیا کو مدنظر رکھ کر ذکر نہیں کی گئی ہیں، ضرورت پڑنے پر نہ صرف یہ کہ وہ کھل کر بیان بھی کی جا سکتی ہیں بلکہ ثبوت کے طور پر  وہ تمام ٹیلیفون پر کی گئی گفتگو جو میرے شوہر اور میرے والدین کے مابین ہوتی رہی ہے، سنائی بھی جا سکتی ہے۔

نوٹ : میرے شوہر کامیری طرف رغبت کانہ ہونا ، اولاد کی خواہش کا نہ  ہو نا، ہمیشہ اس سلسلے میں عملی طور پر تردد سے کا م لینے وغیرہ کے باوجود میرے ساتھ بات چیت وغیرہ میں مناسب رویہ  رکھنا ٹھیک ہی رہا ہے،مزید برآں گزشتہ پانچ5/ سالوں سے میں پاکستان میں مقیم ہوں اور اس دوران مجھے اپنا اور میری بیٹی کا خرچہ بھی مناسب درجے میں ملتا رہا ہے۔

نوٹ: بقول میرے شوہر جو خواتین میرا روحانی علاج  کر رہی ہیں ان کے علاوہ بھی چند قوتیں ایسی ہیں جو میرے پاکستان  آنے میں حائل ہو جاتی ہیں۔ بہر حال تقریبا پانچ 5/سالوں میں میرے شوہر ایک دفعہ آئے تھے جس  وقت میری بیٹی کی عمر تقریبا آٹھ سے دس8-10/ ماہ  ہو گی، اس کے بعد وہ تقریبا دس پندرہ10-15/ دن پہلے اپنے والدین کے ساتھ پاکستان پہنچے ہیں، اختلافات کافی حد تک بڑھ جانے کی وجہ سے نہ تو میری ملاقات میرے شوہر سے ہوئی ہے اور نہ ہی ہم دونوں کے والدین کا آپس میں کوئی رابطہ ہے، لیکن میری بیٹی جس کی عمر اس وقت تقریبا پا نچ 5/ سال ہے وہ اس دوران تین  یا چا ر دفعہ اپنے والد اور دادا ،دادی سے  ان کی خواہش کے مطابق ملنے گئی ہے اور ایک دفعہ رات بھی ان کے پاس گزار کر آئی ہے۔

نوٹ:علاوہ ازیں میری ساس صاحبہ کا رویہ بھی میرے ساتھ کافی حد تک نا مناسب رہا ہے، خاص طور پر ان کی ضرورت اور حد سے زیادہ میرے اور میرے شوہر کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نے بھی میرے اور میرے شوہر کے درمیان کافی بگاڑ اور غلط فہمیاں پیدا کر کے نوبت یہاں تک پہنچانے میں کردار ادا کیاہے۔

نوٹ: مندرجہ بالا مذکورہ حقائق کی میں حلفا اور ذمہ داری سے تصدیق کرتی ہوں، ضرورت پڑنے پر مزید تسلی اور ثبوت کے طور پر  نہ صر ف تمام متعلقہ افراد کےسامنے حلف اٹھا سکتی ہوں بلکہ ٹیلیفون پر کی ہوئی وہ تمام گفتگو بھی پیش کر سکتی ہوں جس میں میرے شوہر نے بنفس نفیس میرے والدین سے متعدد بار مذکورہ بالا باتوں کا برملا اظہار کیا ہے۔

وضاحت از مستفتیہ: میرے شوہر دنیاوی امور ، معاشرت اور معاملات میں بالکل ٹھیک ہیں،وہ کاروبار بھی کر رہے ہیں جسے وہ اچھی طرح سے سنبھال رہے ہیں۔

سوالات:

سوال نمبر ۱:اس طرح کے خیالات رکھنے اور باربار اظہار کرنے کے بعد کیا میرا نکاح اپنے شوہر کے ساتھ قائم ہے؟ اگر نکاح باقی نہیں رہا ہے  تو دوبارہ نکاح کرنے کی کیا صورت ہو گی؟

سوال نمبر4: میں ابھی بھی اپنے شوہر کے نکاح میں ہوں یا نہیں رہی؟دونوں صورتوں میں اپنی بیٹی کو کس عمر تک اپنے پاس رکھنے کا شرعی حق رکھتی ہوں، جس پر میرے شوہر کی طرف سے کسی قسم کا شرعی دباو نہ ہو، جبکہ میرا ارادہ اپنے شوہر کے نکاح سے نکل جانے کے باوجود بھی اگر دوسرے نکاح کا نہ ہو تو۔۔۔؟؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دین اسلام  اور اس کے احکامات  قطعیہ قیامت تک کےلیے ہیں ، جن میں کسی طرح کی تبدیلی ممکن نہیں  ، چنانچہ مستقبل میں قوانین شرعیہ کی یکسر تبدیلی  کا خیال و عقیدہ رکھنا ،کفریہ عقیدہ ہے اور ا س طرح کا عقیدہ رکھنے سے انسان مرتد و  کافر ہو جاتا ہے  نیز  ارتداد کی وجہ سے انسان کا اپنی   بیوی سے نکاح  بھی خود بخود  ختم ہوجاتا ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں ذکر کی گئی معلومات اگر واقع کے مطابق ہیں اور آپ کے شوہر نے جانتے بوجھتے، ہوش و حواس کی حالت میں یہ باتیں کی ہیں اور وہ ان سب باتوں کا  عقیدہ بھی رکھتا ہے  اور پوچھنے پر ان کا اقرار بھی کرتا ہے  تو آپ کا اپنے شوہر سے نکاح ختم ہو چکا ہے،  تجدید نکاح کی صورت یہ ہے کہ آپ کا  شوہر (جس کے  کفریہ عقائد ہیں )کفریہ عقائد سے مکمل طور پر توبہ استغفار کرکے اپنے ایمان کی تجدید کرے  اور دوبارہ سے کلمہ پڑھ کر دین اسلام میں داخل ہو،  اس کے بعد باقاعدہ مستقل عقد کےذریعے گواہوں کی موجودگی میں  نکاح کیا جائے۔

بہرحال اگر  آپ  دوسرے نکاح کا ارادہ نہیں رکھتی  توبچی کی عمر نو(9) سال ہوجانے تک آپ  اسے اپنے پاس رکھنے کی شرعی حقدار ہیں، اور اس عرصے کے دوران آپ کے شوہر کو آپ پر کسی قسم کے دباو کا حق حاصل نہ ہو گا۔

حوالہ جات
[المائدة: 3]
{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا}
الاختيار لتعليل المختار (4/ 99)
 منها أنه يكفر مستحلها لثبوت حرمتها بدليل مقطوع به.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (1/ 207)
من اعتقد الحرام حلالا أو على القلب يكفر إذا كان حراما لعينه وثبتت حرمته بدليل مقطوع به، أما إذا كان حراما لغيره بدليل مقطوع به أو حراما لعينه بأخبار الآحاد لا يكفر إذا اعتقده حلالا اهـ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 566)
(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى وبنت إحدى عشرة مشتهاة اتفاقا زيلعي. (وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي.

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۳ رجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب