021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض پر اضافی رقم وصول کرنا
75899خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ :

محمد اسد کے میں نے سولہ  لاکھ (1600000) روپے ادا کرنے تھے جو میں(فہد امتیاز) نے ان سے بطور قرض لیے تھے، اور محمد اس نے یہ قرض مجھے اپنی آٹھ کنال زمین بیچ  کر دیا تھا،محمد اسد نے اپنی آٹھ کنال زمین بیچ کر  مجھے اس معاہدہ کے ساتھ قرض  دیا تھا کہ  جہاں پر میری آٹھ کنال زمین موجود ہے، اس کی سالانہ آمدنی میں محمد اسد کو دیتا رہوں گا جب تک میری آٹھ کنال زمین نہیں بیچی جاتی، میں نے معاہدہ کے مطابق ایک سال بعد  قرض کی رقم کے علاوہ اضافی طور پر  زمین کی ایک سال کی آمدنی  محمد اسد کو   دے دی جو کہ  چوالیس ہزار(44000) روپے تھی۔

سوال یہ پوچھنا تھا کہ  ہمارے درمیان اس اضافی رقم  کے معاہدہ اور اس کی لین دین کی کیا حیثیت ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قرض کے معاملے میں کسی بھی طرح کی اضافی  رقم کی شرط لگانا" سود"، اور قرض کا یہ معاملہ" سودی قرض"کہلاتا  ہے جو قرآن و احادیث کی  رو سے ناجائز ، حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔

 قرض پر مشروط" سود" کی اضافی رقم لینا بھی ناجائز  و حرام ہے ، سود کی اضافی رقم لینے والا اس رقم کامالک نہیں بنتا، اور اس طرح کی اضافی رقم لینے والے  پر یہ رقم مالک کو واپسی لوٹانا لازم  ہوتا ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں کیا گیا قرض کا سودی معاملہ  بھی ناجائز و حرام ہے، جس کی وجہ سے  آپ دونوں   پر  سچے دل سے تو بہ و استغفار کرنا لازم ہے۔

محمد اسد نے قرض کی رقم سے زائد جو چوالیس(44000) ہزار روپے زمین کی آمدنی کے لیے ہیں وہ اس کی ملکیت میں نہیں آئے لہذا اس پر لازم ہے کہ وہ یہ رقم واپسی  آپ (مالک) کو لوٹائے۔

حوالہ جات
[البقرة: 275]
{الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ}
صحيح البخاري (3/ 84)
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَوْنُ بْنُ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبِي اشْتَرَى
 حَجَّامًا، فَأَمَرَ بِمَحَاجِمِهِ، فَكُسِرَتْ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ قَالَ: «إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الدَّمِ، وَثَمَنِ الكَلْبِ، وَكَسْبِ الأَمَةِ، وَلَعَنَ الوَاشِمَةَ وَالمُسْتَوْشِمَةَ، وَآكِلَ الرِّبَا، وَمُوكِلَهُ، وَلَعَنَ المُصَوِّرَ».

سعد مجیب

دارلافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۴ رجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب