021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین طلاق کےبعدشوہرکاطلاق دینےسےانکارکرنا،عدت کےدوران جاب کےلیےباہرنکلنےکاحکم
75892طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

میرےشوہرنےسب سےپہلےآٹھ(8)سال پہلےایک دفعہ طلاق دی،فون پرکہاتھا"میں نےتجھےطلاق دی" پھراس کےبعدابھی پچھلےنومبرکےمہینےمیں ایک بارواپس بول دیاکہ"میں نےتجھےطلاق دی"۔پھرابھی 16جنوری والےدن تیسری بارکہہ دیاکہ"میں نےتجھےطلاق دی"۔تویہ تین دفعہ ہوگیا۔

مگراب وہ بندہ(میراشوہر)انکارکررہاہےاورکہہ رہاہےکہ"طلاق نہیں ہوئی ہے،لیکن میں گواہ ہوں،اور میرےمحلےوالوں نےبھی سناتھا،جب دوسری بارنومبرکےمہینےمیں بولاتھامگرمیراشوہرمان ہی نہیں رہاہے۔دراصل میراجوشوہر(سلمان)تھا،وہ نشہ کرتاتھا،اورکرتاہے۔اس کوہوش ہی نہیں رہتا۔

اب آپ لوگ میرامسئلہ حل کردیں،مجھے ایسافتویٰ دےدیں کہ میں آگےدکھاسکوں،میرےپاس پروف ہوکہ میری طلاق ہوچکی ہے۔تین بارطلاق کہہ دی ہے،مگروہ بندہ(میراشوہر)مان نہیں رہاہے،میری شادی کوپورےنو سال ہوگئےہیں۔

وضاحت:

1: سائلہ کا کہنا ہے کہ میرا شوہر لوگوں کے سامنے تین طلاقیں دینے سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے میں نے اپنی بیوی کو بالکل ایک طلاق بھی نہیں دی ہے، اور جب مجھ سے ملتا ہے تو کہتا ہے اور دھمکی بھی دیتا ہےکہ دو طلاقیں تو میں نے پہلے دے دی ہے، اگر باز نہ آئے تو تیسری بھی دے دوں گا۔

2: شوہر سے فون پہ بات ہوئی ان کا کہنا ہے کہ میں نے بالکل طلاق نہیں دی ہے، صرف طلاق دینے کی دھمکی دیتا آرہا ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ صورت مسؤلہ میں تمام طلاقوں میں میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہے، اس لئے اس صورت میں قضاءاوردیانت کا حکم الگ الگ ہے،چنانچہ قضاء تو اس صورت کا حکم یہ ہےکہ جب  میاں بیوی کے درمیان  طلاق کے بارے میں اختلاف ہوجائے اور مسئلہ قاضی کے پاس  عدالت میں چلا جائےتووہاں شوہر کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوتی ہے، البتہ اگر عورت گواہ پیش کردے تو پھر قاضی عورت کی بات کا اعتبار کرتے ہوئے تین طلاق کا فیصلہ کرتا ہے، لہذا صورت مسؤلہ میں اگر سائلہ کے پاس  تین طلاقوں پر دوگواہ ہیں تو اس صورت میں قضاء وقانون کے لحاظ سے بھی عورت پر مکمل تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی، ورنہ ازروئے قضاء شوہر کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی اور اسے قانونا  عورت کو اپنے نکاح میں رکھنے کا اختیار ہوگا۔

 لیکن دیانت کی رو سے اس صورت کے حکم میں یہ تفصیل ہےکہ مذکورہ خاتون اپنے کانوں سے تینوں دفعہ طلاق سننے کا جو دعوی کر رہی ہے اگر اسے اپنے دعوی کے سچ اور درست ہونے کا یقین یا غالب گمان ہے تو پھر اس کے حق میں تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اگرچہ شوہر قسم کھانے کیلئے تیار بھی ہو، کیونکہ عورت اس معاملے میں قاضی کی طرح ہے اور اس کے حق میں اس کا اپنا  فیصلہ معتبر ہے، لہذا ایسے میں اس کیلئے شوہر کو اپنے اوپر  تمکین (قدرت)  دینا جائز نہیں ہے۔اسے چاہئے کہ جس طریقہ سے بھی ہو مرد سے اپنی جان چھڑائے اور اگر شوہر چھوڑنے کیلئے تیار نہ ہو تو عورت عدالت سے بھی خلع کی ڈگری لیکر قانونی تحفظ حاصل کرسکتی ہے۔ 

حوالہ جات
الدر المختار (3/ 356)
(فإن اختلفا في وجود الشرط) أي ثبوته ليعم العدمي (فالقول له مع اليمين) لإنكاره الطلاق، ومفاده أنه لو علق طلاقها بعدم وصول نفقتها أياما فادعى الوصول وأنكرت أن القول له وبه جزم في القنية، لكن صحح في الخلاصة والبزازية أن القول لها، وأقره في البحر والنهر، وهو يقتضي تخصيص المتون؛ لكن قال المصنف: وجزم شيخنا في فتواه بما تفيده المتون والشروح لأنها الموضوعة لنقل المذهب كما لا يخفى (إلا إذا برهنت) فإن البينة تقبل على الشرط وإن كان نفيا كإن لم تجئ صهرتي الليلة فامرأتي كذا فشهد أنها لم تجئه قبلت وطلقت منح۔
 البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 277)
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه هكذا اقتصر الشارحون وذكر في البزازية وذكر الأوزجندي أنها ترفع الأمر إلى القاضي فإن لم يكن لها بينة يحلفه فإن حلف فالإثم عليه اهـ. ولا فرق في البائن بين الواحدة، والثلاث اهـ.وهل لها أن تقتله إذا أراد جماعها بعد علمها بالبينونة فيه قولان، والفتوى أنه ليس لها أن تقتله وعلى القول بقتله تقتله بالدواء فإن قتلته بالسلاح وجب القصاص عليها وليس لها أن تقتل نفسها وعليها أن تفدي نفسها بمال أو تهرب وليس له أن يقتلها إذا حرمت عليه ولا يقدر أن يتخلص منها بسبب۔

محمدنصیر

 دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی 

     08، رجب ،1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب