021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کے لیے وقف جگہ کو بیچ کر دوسری مسجد پر پیسے لگانے کا حکم
79377وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

ایک شخص نے تیس پینتیس سال پہلے مسجد کے لیے جگہ وقف کی، کسی نے اس جگہ پر مسجد تعمیر نہ کی، اب گاؤں میں ایک مسجد بن رہی ہے، وہ شخص یہ چاہتا ہے کہ اس وقف شدہ جگہ کو بیچ کر حاصل شدہ رقم دوسری مسجد پر لگا دے تو کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ ہمارے یہاں اس مسئلہ میں دوآراءپائی جاتی ہیں، بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اس جگہ کو تبدیل کرنا جائز نہیں، اب اس جگہ مسجد ہی بنے گی، دوسری رائے یہ ہے کہ اس جگہ چونکہ ابھی تک کسی نے سجدہ نہیں کیا، اس لیے یہ وقف تام نہیں ہوا، لہذا اس جگہ کو بیچ کر دوسری مسجد پر پیسے لگانا جائز ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں کون سی رائے زیادہ صحیح ہے؟ 

وضاحت: سائل نے بتایا کہ نئی مسجد اور وقف شدہ مسجد کے درمیان دس منٹ کی مسافت ہے، البتہ وقف شدہ مسجد سے پانچ منٹ کی مسافت پر ایک اور چھوٹی مسجد بنی ہوئی ہےمستقبل میں جس کے چھوٹا ہونے کا اندیشہ ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب کوئی جگہ مسجد کے لیے باقاعدہ  (اگرچہ زبانی طور پر ہی ہو) وقف کر دی جائے تو مفتی بہ قول کے مطابق وہ جگہ قیامت تک مسجد کے لیے مختص ہو جاتی ہے، اس جگہ کو تبدیل کرنا یا بیچنا جائز نہیں ہوتا، یہ حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ کا قول ہے اور فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اسی پر فتوی کی تصریح ہے۔دوسرا قول حضرت امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہ اللہ کا ہے ان کے نزدیک مسجد کے لیے وقف اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ جگہ متولی کے سپرد نہ کر دی جائے یا یہ کہ اس میں کوئی شخص نماز پڑھ لے تو بھی وقف مکمل ہو جاتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سوال میں ذکر کی گئی وضاحت کے مطابق وقف شدہ جگہ اور نئی تعمیر ہونے والی مسجد کے درمیان دس منٹ کی مسافت ہے، اگرچہ وقف شدہ جگہ سے پانچ منٹ کی مسافت پر ایک چھوٹی مسجد موجودہے، لیکن مستقبل میں نمازیوں کی تعداد کے لحاظ سے اس کے چھوٹا ہو جانے کا اندیشہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اس وقف شدہ جگہ پر بھی اگر مسجد بنا دی جائے تو اس کے بھی آباد ہونے کی امید ہے، لہذا ایسی صورت میں اگر مذکورہ جگہ مسجد کے لیے وقف  کر دی گئی تھی تو  امام ابویوسف رحمہ اللہ کے مفتی بہ قول کے مطابق وقف مکمل ہو چکا، اب اس جگہ کو بیچ کر پیسے کسی دوسری مسجد پر لگانا جائز نہیں، بلکہ بوقتِ ضرورت  شرعااسی جگہ پر مسجد بنانا ضروری ہے۔

البتہ اگر آبادی کی صورتِ حال کے مطابق مذکورہ گاؤں میں دو مسجدیں کافی ہیں اور کسی تیسری مسجد کی ضرورت نہیں ہے اور اس جگہ مسجد تعمیر ہونے کی صورت میں اس کے آباد ہونے کی امید کم ہے تو اس صورت میں گاؤں کی تفصیل ذکر کرکے دوبارہ سوال پوچھ سکتے ہیں۔

حوالہ جات
 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 358) دار الفكر،بيروت:
(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي) حاوي القدسي (وعاد إلى الملك) أي ملك الباني أو ورثته.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 338) دار الفكر،بيروت:
ولا يلزم إلا بأحد أمرين: إما أن يحكم به القاضي أو يخرجه مخرج الوصية. وعندهما يلزم بدون ذلك، وهو قول عامة العلماء، وهو الصحيح. ثم إن أبا يوسف يقول يصير وقفا بمجرد القول لأنه بمنزلة الإعتاق عنده، وعليه الفتوى.
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 21) دار احياء التراث العربي، بيروت:
"وعند أبي يوسف يزول ملكه بالقول" كما هو أصله، إذ التسليم عنده ليس بشرط والوقف لازم. "وعند محمد إذا استقى الناس من السقاية وسكنوا الخان والرباط ودفنوا في المقبرة زال الملك" لأن التسليم عنده شرط والشرط تسليم نوعه، وذلك بما ذكرناه. ويكتفى بالواحد لتعذر فعل الجنس كله.
 الفقه الاسلامی وادلته: 10/7617 ، الباب الخامس الوقف ، الفصل: حکم الوقف:
إذا صحّ الوقف خرج عن ملک الواقف ، وصار حبیسًا علی حکم ملک الله تعالی ،   ولم یدخل في ملک الموقوف علیه ، بدلیل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالک الأول) کسائر أملاکه ، وإذا صحّ الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته".

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

16/رجب المرجب 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب