021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک بیوی،ایک بیٹی اورچار بیٹوں کی صورت میں تقسیم میراث
76036میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم مفتی صاحب، مودبانہ عرض ہے کہ اس خط کے ذریعے آپ سے شریعت کی روشنی میں وراثت کے معاملے میں رہنمائی درکار ہے:

میرے والد صاحب کا  جنوری میں رضائے الہی سے انتقا ل ہو گیا تھا، ان کے ورثہ میں میری والدہ،میرے تین بھائی اور میری ایک بہن ہے، ترکہ میں میرے والد صاحب نے  ترکہ میں ایک گھرجو کہ بفر زون میں واقع ہے، اس کے علاوہ ایک پلاٹ جو کہ ہاکس بے میں واقع ہے اور ایک عدد موٹر سائیکل چھوڑی ہے۔

والد صاحب کے بفرز ون والے گھر میں دو بھائی رہتے ہیں جبکہ مجھ سمیت میرا ایک بھائی کرایہ کے گھر میں رہتے ہیں اور بہن اپنے شوہر کے ساتھ اپنے گھر میں رہتی ہے۔برائے مہربانی شریعت کے مطابق  اس مسئلہ میں رہنمائی فرمائیں کہ مرنے کے بعد کتنے دن کے اندر وراثت تقسیم ہونی چاہیے؟

چونکہ مجھ سمیت میرا ایک اور بھائی کرایہ  پر رہتے ہیں تو اس  مہنگائی کےدور میں کرایہ ادا کرنا  بہت مشکل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ہم دو بھائیوں نے  اپنی والدہ سے  مودبانہ درخواست کی  کہ بفرزون  والے گھر کو بیچ کر سب ورثاء کو ان کا حصہ تقسیم کر دیا جائے تا کہ حصہ کی رقم سے اپنا اپنا گھر خرید لیا جائے۔

والدہ اور تمام بہن بھائیوں کے متفقہ فیصلے کے بعد اب ہم اس گھر کو بیچ رہے ہیں، خریدنے والے پارٹی  سے اس گھر کی قیمت دوکروڑ پینسٹھ لاکھ روپے طے ہوئی ہے، آپ سے گزارش ہے کہ اس رقم کو تمام ورثاء میں کس حساب سے تقسیم کیا جانا چاہیے ، برائے مہربانی رہنمائی فر ما ئیں۔

ورثہ کی تفصیل درج ذیل ہے:

  1. والدہ(سائل کی والدہ یعنی میت کی بیوی)۔
  2. بہن( سائل کی بہن یعنی میت کی بیٹی)۔
  3. چار بھائی( سائل اور اس کے دیگر تین بھائی یعنی میت کے بیٹے)۔

یہاں اس بات کو بھی مدنظر رکھیے گا کہ گھر کو بیچنے کے لیے مکان کے کاغذات کی نامزدگی کے لیے کے ڈی اے سے میوٹیشن ٹرانسفرکے سلسلے میں کچھ خرچہ ہو گا، اور اسٹیٹ ایجنسی والے کو بھیایک فیصد کمیشن دینا ہوگا، تو مکان کی کل مالیت کی تقسیم ان اخراجات کونکالنےکے بعد ہو گی یا پہلے رقم ورثاء کو ان کے حصے کے مطابق ادا کرنے کے بعد پھر تمام ورثہ ملا کر ان اخراجات کو برداشت کریں گے۔اس کے علاوہ خریدنے والی پارٹی دس فیصد بیعانہ کے طور پر دے رہی ہےتو اس کی تقسیم کی بارے میں راہنمائی فرمائیں۔

وضاحت از مستفتی: صورت مسئولہ میں خرید و فروخت کامعاملہ مکمل ہو چکا ہے اور فریقین نے سیل ایگریمنٹ بھی سائن کر لیا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 پوچھے گئے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں :

1:    میراث کی تقسیم جتنی جلدی ہو سکے کر لینی چاہیے، البتہ بعض صورتوں میں انتظامی امور کی وجہ سے اگر کچھ تاخیر  ہو جائے تو اس کی گنجائش ہے،تقسیم میراث میں بلا وجہ تاخیر کرنے  سے  بسا اوقات دوسرے    کا حق استعمال کرنے اور دیگر کئی  طرح کےمسائل پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، البتہ  مدت کےاعتبار سے اس طر ح  کی کوئی تعیین و تحدید نہیں  ہے کہ اسی عرصے میں ہی  میراث تقسیم  کی جا سکتی ہو۔

2:    صورت مسئولہ میں میت کی وفات کے وقت اس کے ورثاء میں سے  ایک بیوی، ایک بیٹی اور چار بیٹے موجود تھے ، لہذا  ان ورثاء میں تقسیم میراث کا طریقہ کار یہ ہے کہ   میت کے کل ترکہ کو 72 برابر حصوں میں تقسیم کر دیا جائے  جن میں سے میت کی  بیوی کو9   حصے ، میت کی بیٹی  کو7 حصے اور میت کے ہر بیٹے14 کو حصے دے دیےجائیں۔

فیصد کے اعتبار سے تقسیم یوں ہو گی کہ  میت کی کل میراث میں سے میت کی بیوی کو12.5% ، میت کی بیٹی کو9.72%  اور میت کے ہر بیٹے کو علیحدہ علیحدہ  19.4% دیا جائیگا۔

بفر زون کے گھر کو بیچ کر حاصل ہونے والی دوکروڑ پینسٹھ لاکھ کی رقم  کو بھی آپ کے بہن بھائیوں( یعنی میت کی اولاد)  اور والدہ (یعنی میت کی بیوی) کے درمیان اسی ذکر کیے گئے فیصد کے   اعتبار  سے تقسیم کیا جائیگا  یعنی   دوکروٹ پینسٹھ لاکھ کا12.5%( 3318472روپے)  والدہ کو، 9.72%(2580445روپے) بہن کو ، اور19.4% (5150270 روپے)   ہر بھائی کو علیحدہ علیحدہ دیا جائیگا۔

ذیل کے نقشے میں یہ تفصیل مزید وضاحت سے دکھائی گئی ہے:

نمبر شمار

ورثہ

عددے حصے

فیصدی حصے

ملنے والی رقم

1

میت کی بیوی

9

12.5%

3318472

2

میت کی بیٹی

7

9.72%

2580445

3

میت کا بیٹا1

14

19.4%

5150270

4

میت کا بیٹا2

14

19.4%

5150270

5

میت کا بیٹا3

14

19.4%

5150270

6

میت کا بیٹا4

14

19.4%

5150270

3 :   مکان کی کل مالیت کی تقسیم ، مکا ن کو بیچتے وقت اس پر آنے والے  اخراجات( میوٹیشن ٹرانسفر، اسٹیٹ ایجنسی کا کمیشن) کو  نکالنےکے بعد بھی کی جا سکتی ہے   اور یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ  پہلے رقم ورثاء کو ان کے حصے کے مطابق ادا  کر دی جائے اور پھر تمام ورثہ سے ان کے حصے کے تناسب سے اخراجات کی رقم وصول کر لی جائے، مگر بہتر یہی ہے کہ مکان کی کل مالیت کی تقسیم ان اخراجات کو  نکالنےکے بعد ہی کی جائے، کیونکہ بسا اوقات ورثا ء کو رقم حوالہ کرلینے کے بعد ان سے اخراجات کی رقم وصول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

4:    صورت مسئولہ میں چونکہ خرید و فروخت کامعاملہ ہو چکا ہےاور بیعانہ کی رقم کی حیثیت ثمن (قیمت)کے ایک جزء  کی ہے    اس لیے اس رقم کو  شرکاء (ورثاء)پر فی الحال ہی  ان کے  حصے کے اعتبار سے تقسیم  کیا جا سکتا ہے، البتہ اگرورثہ  چاہیں تو گھر کی پوری قیمت وصول کرنے تک بیعانہ کی رقم کی تقسیم کو موخر بھی کر سکتے ہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 769)
(فيفرض للزوجة فصاعدا الثمن مع ولد أو ولد ابن) وأما مع ولد البنت فيفرض لها الربع (وإن سفل والربع لها عند عدمهما) فللزوجات حالتان الربع بلا ولد والثمن مع الولد.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 773)
فصل في العصبات العصبات النسبية ثلاثة عصبة بنفسه وعصبة بغيره وعصبة مع غيره (يحوز العصبة بنفسه وهو كل ذكر) فالأنثى لا تكون عصبة بنفسها بل بغيرها أو مع غيرها (لم يدخل في نسبته إلى الميت أنثى) فإن دخلت لم يكن عصبة كولد الأم فإنه ذو فرض وكأبي الأم وابن البنت فإنهما من ذوي الأرحام (ما أبقت الفرائض) أي جنسها (وعند الانفراد يحوز جميع المال) بجهة واحدة. ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل).

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۰ رجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب