021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میاں بیوی کے ذمہ ایک دوسرے کے واجب شدہ حقوق
79380نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میاں بیوی کے ایک دوسرے کے ذمہ کون کون سے حقوق واجب ہیں؟ جن کو بجا لانے سے زوجین کے درمیان محبت والفت برقرار رہے اور گھرانہ اختلاف کا شکار نہ ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نکاح کی مبارک سنت پر عمل کرنے میں بہت سے مقاصد کا حصول مقصود ہوتا ہے، جیسے اولاد اور پاکدامنی کا حصول، دو خاندانوں کے درمیان رشتہ داری کا قائم ہونا، گناہوں سے بچنا اور احساسِ ذمہ داری وغیرہ،لیکن ان تمام مقاصد کی تکمیل میاں بیوی کے ذمہ ایک دوسرے کے حقوقِ واجبہ ادا کرنے کی صورت میں ہی ہو سکتی ہے، زوجین میں سے کسی بھی فریق کےاپنے فرائض منصبی میں کوتاہی کرنے اور دوسرے کے حقوق نہ ادا کرنے کی صورت میں یہی نکاح اور رشتہ ازدواج سکون کی بجائے انتہائی پریشانی کا باعث بن جاتا ہے، جس سے نہ صرف زوجین بلکہ دونوں خاندانوں کے اعزہ واقارب سخت بے چینی اور اضطراب کا شکار ہوتے ہیں، یہاں تک کہ کئی مرتبہ زوجین کے اختلاف کا اثر اولاد تک بھی جا پہنچتا ہے اور بعض اوقات طلاق تک نوبت جا پہنچتی ہے،اس لیے زوجین کی ذمہ داری ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی اور غفلت سے کام نہ لیں۔ اس سلسلے میں درج ذیل امور کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے:

  1. اللہ تعالیٰ نے مرد کی بنسبت عورت کو جسمانی اعتبار سے کمزور پیدا کیا ہے اور گھر میں اکٹھے رہتے ہوئے  ایک دوسرے کے حقوق میں کچھ نہ کچھ کوتاہی ہرآدمی سے ہو جاتی ہے، اس لیے احادیثِ مبارکہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار مردوں کو بیویوں کے ساتھ خیرخواہی، حسنِ خلق اور نرمی کا معاملہ کرنے کا حکم دیا، انسان اپنے اخلاق کی بدولت بڑے سےبڑے سخت دل  شخص کو بھی نرم کر سکتا ہے،  اپنے حسنِ اخلاق کے ذریعہ بیوی کو خوش رکھنا کوئی مشکل کام نہیں،اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرتے ہوئے  بیوی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ حسنِ اخلاق اور محبت  کے ساتھ پیش آنا چاہیے، اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کرنا چاہیے، شرعی اور اخلاقی اعتبار سے بیوی پر ظلم وتشدد کی ہرگز اجازت نہیں۔
  2. مرد کو چاہیے کہ باہر کے معاملات کا اثر گھر میں ظاہر نہ کرے، مثلا کام کی تھکاوٹ، کسی سے کوئی ناچاکی یا نقصان ہو جائے تو اس کا غصہ بیوی پر نہ نکالنا چاہیے، عام طور پر جب باہر کے کسی ناگوار معاملے کا غصہ گھر میں آ کر بیوی کی کسی معمولی بات پر نکالا جاتا ہے تو اس کا بیوی پر بہت منفی اثر پڑتا ہے۔ نیز بیوی کو بھی چاہیے کہ شوہر کے گھر آنے پر فوری طور پر شوہر کے مزاج کے خلاف کوئی بات یا کسی چیز کا مطالبہ نہ کرے، بلکہ اس کو کچھ دیر سکون اور آرام کرنے دے اور جب شوہر اچھے موڈ میں ہو تو اس وقت بات کر لے۔
  3. بیوی کو گالم گلوچ اور بُرا بھلا کہہ کر دوسروں کے سامنے اس کی عزت کو پامال کرنا ہرگز جائز نہیں، گالی دینا اور کسی مسلمان کو ذلیل کرنا اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں، بلکہ ہر معاملے میں نرمی کے ساتھ پیش آنے کی کوشش کرنی چاہیے اوراگرکوئی سمجھانے کی بات ہو تودیگر رشتہ داروں کے سامنے ڈانٹنے کی بجائے  خلوت میں اور مناسب موقع دیکھ کر سمجھانا چاہیے۔
  4. شریعت نے  عورت کے ذمہ  امورِ خانہ داری اور مرد کے ذمہ باہر کے معاملات سنبھالنےکی ذمہ داری سونپی ہے، لہذا عورت کوصرف گھریلو امور کو سنبھالنا چاہیے، تاکہ شوہر باہر سے تھکا ماندہ گھر آئے تو بیوی تازہ دم ہو کر اس کی خدمت کرسکے اور اس کو خوش کر کے اپنی جنت بنا سکے، نیز گھر میں رہتے ہوئے بچوں کی تربیت بھی اچھے طریقے سے کی جا سکتی ہے،جوکہ اولاد کا شرعی حق ہے۔اس لیے عورت کو بلا ضرورت گھر سے باہر کوئی مستقل ملازمت وغیرہ اختیار نہیں کرنی چاہیے، البتہ اگر شوہر راضی ہو، ضرورت بھی متحقق ہو اور زوجین کے درمیان ملازمت کی وجہ سے تعلقات پر اثر نہ پڑتا ہو تو شرعی احکام کی پاسداری کرتے ہوئے ملازمت کی جا سکتی ہے۔
  5. بیوی کی ذمہ داری ہے کہ شوہر کی ہر جائز بات پر عمل کرنے کی کوشش کرے اور حتی الامکان اس کو ناراض نہ کرے،حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اگر میں کسی کو سجدہ کی اجازت دیتا تو بیوی کو اپنے شوہر کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا۔ اس لیے جب شوہر کسی بات سے منع کرے کہ تو بیوی کی ذمہ داری ہے کہ اس سے رک جائے اور جب وہ کسی کام کا حکم کرے تو اس کے حکم کی تعمیل کرے، البتہ شوہر کو بھی چاہیے کہ بیوی پر کام کا زیادہ بوجھ نہ ڈالے، جیسا کہ مشترکہ خاندانی نظام (Joint Family System) میں ہوتا ہے، فقہائے کرام رحمہم اللہ نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر شوہر مالدار ہو تو بیوی کے خادم (آج کل خادم کی جگہ گھرکی صفائی اور کپڑے وغیرہ دھونے کے لیے رکھی گئی عورت مراد ہو گی) کا خرچ بھی اس کے ذمہ لازم ہے۔ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ نکاح کے بعد عورت کے ذمہ قضاءً صرف شوہر کی خواہش کو پورا کرنا ہے، گھریلو کام کاج وغیرہ قضاءً عورت کے ذمہ واجب نہیں، یہاں تک بچے کو دودھ پلانا بھی قضاءً عورت کی ذمہ داری میں شامل نہیں، عورت کی طرف سے یہ تمام کام بطورِ احسان کیے جارہے ہوتے ہیں، اس لیے شوہر کو چاہیے کہ ان امور کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس پر سختی کا معاملہ نہ کرے۔
  6. میاں بیوی کو کبھی کبھار ایک دوسرے کو ہدیہ بھی دینا چاہیے، حدیثِ پاک میں ہے کہ ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے، نیز کبھی فرصت کے ایام میں سیروتفریح کے لیے باہر کسی جگہ لے جانا چاہیے، کیونکہ گھر میں ایک ہی جگہ بند رہنے سے آدمی پریشان ، طبیعت میں بے چینی اور مزاج میں چڑچڑاہٹ پیدا ہو جاتی ہے، جس سے آپس کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کو سفر میں اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔
  7. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی دلجوئی بھی فرماتے تھے، ان کے ساتھ مزاح بھی فرماتے تھے، حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دوڑ لگانا بھی ثابت ہے، جس جگہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پانی پیتی تھیں وہیں سے منہ لگا کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانی نوش فرماتے، اپنے وصال کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی چبائی ہوئی مسواک کی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں ہی ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا۔ نیز ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا صدقہ کے برابر اجر رکھتا ہے۔ یہ سب چیزیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تعلیم دینے اور بیویوں کو خوش رکھنے کے لیے فرمائی تھیں، اس لیے شوہر کو چاہیے کہ ان مبارک سنتوں پر عمل کرکے بیوی کو خوش رکھنے اور اس کا دل جیتنے کی کوشش کرے۔
  8. شوہر کو چاہیے کہ وقتاً فوقتاً گھریلو کام کاج میں بیوی کی بھی معاونت کرے، تجربہ یہ ہے کہ اس سے زوجین کے درمیان محبت بڑھتی ہے اور دلوں سےنفرت وعداوت ختم ہوتی ہے، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر میں تشریف لاتے تو گھریلو کام کاج میں شمولیت اختیار فرماتے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کپڑے کو پیوند خود لگاتے، سرمبارک سے جوئیں وغیرہ خود نکالتے، بکریوں کا دودھ خود دھوتے، اپنے جوتے کو پیوند خود لگاتے چولہے میں آگ بھی جلا لیتے اور گھر کی صفائی بھی کر لیتے تھے۔
  9. عورت کے ذمہ شوہر کا سب سے بڑا حق اس کوازدواجی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دینا ہے، اس لیے شریعت نے اس معاملے میں عورت کی کوتاہی کو ہرگز برداشت نہیں کیا، چنانچہ احادیثِ مبارکہ میں شوہر کے اپنی خواہش کا اظہار کرنے کی صورت میں عورت کے انکار کرنے پر شدید تنبیہ فرمائی گئی ہے، چنانچہ بخاری شریف کی ایک حدیث میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے اور عورت آنے سے انکار کرے تو صبح تک اس پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں، دوسری روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتے ہیں۔ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ اگر بیوی تنور پر روٹی پکانے میں مصروف ہو اور اسی حالت میں شوہر اس کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ تنور چھوڑ کر شوہر کی حاجت کو پورا کرے۔ اس کے علاوہ اور بھی احادیثِ مبارکہ ہیں جن میں شوہر کی حاجت پوری نہ کرے پر عورت کو تنبیہ کی گئی ہے۔

البتہ شوہر پر بھی لازم ہے کہ اگربیوی کو کوئی عذر ہو، جیسے صحت وغیرہ ٹھیک نہ ہو تو ایسی صورت میں بیوی کو ازدواجی تعلقات پر مجبور نہ کرے،  بلکہ عورت کی صحت اور طبیعت کا لحاظ رکھتے ہوئے خواہش کا اظہار کرے۔

  1. آج کل اس مبارک رشتے کو برقرار رکھنے میں سب سے اہم چیز زوجین خصوصاً خاوند کا غصے پر کنٹرول کرنا اور حلم وبردباری کا مظاہرہ کرنا ہے، ایسے بیسیوں واقعات سامنے آچکے ہیں کہ شوہر غصے میں آکر تین طلاقیں دیتا ہے اور پھر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے علمائے کرام سے اس کا حل پوچھتا ہے اور بعض مرتبہ تین طلاقیں دینے کے بعد مختلف مسالک کے علماء کی طرف سے لیے گئے فتوی کا سہارا لے کر اس رشتے کو باقی رکھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن حقیقت میں اس وقت پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے، اس لیے زوجین کے ذمہ ایک دوسرے کا سب بڑا حق اپنے شریکِ حیات کی بات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا اور حتی الامکان صبر کا مظاہرہ کرنا ہے، اس سے ازدواجی رشتہ برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ صبر کرنے والے کو آخرت میں ان شاء اللہ بہت بڑا اجر بھی ملے گا۔
حوالہ جات
صحيح مسلم (2/ 1091) دار إحياء التراث العربي – بيروت:
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فإذا شهد أمرا فليتكلم بخير أو ليسكت، واستوصوا بالنساء، فإن المرأة خلقت من ضلع، وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه، إن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته لم يزل أعوج، استوصوا بالنساء خيرا»
صحيح مسلم (1/ 245) دار إحياء التراث العربي – بيروت:
عن المقدام بن شريح، عن أبيه، عن عائشة قالت: «كنت أشرب وأنا حائض، ثم أناوله النبي صلى الله عليه وسلم فيضع فاه على موضع في، فيشرب، وأتعرق العرق وأنا حائض،ثم أناوله النبي صلى الله عليه وسلم فيضع فاه على موضع في»
مسند أحمد مخرجا (43/ 263) مؤسسة الرسالة، بيروت:
عن عائشة، قالت: سئلت ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعمل في بيته؟ قالت: «كان بشرا من البشر يفلي ثوبه، ويحلب شاته، ويخدم نفسه»
سنن الترمذي ت بشار (2/ 458) دار الغرب الإسلامي – بيروت:
عن سليمان بن عمرو بن الأحوص قال: حدثني أبي، أنه شهد حجة الوداع مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحمد الله، وأثنى عليه، وذكر، ووعظ، فذكر في الحديث قصة، فقال: ألا واستوصوا بالنساء خيرا، فإنما هن عوان عندكم، ليس تملكون منهن شيئا غير ذلك، إلا أن يأتين بفاحشة مبينة، فإن فعلن فاهجروهن في المضاجع، واضربوهن ضربا غير مبرح، فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا، ألا إن لكم على نسائكم حقا، ولنسائكم عليكم حقا، فأما حقكم على نسائكم فلا يوطئن فرشكم من تكرهون، ولا يأذن في بيوتكم لمن تكرهون، ألا وحقهن عليكم أن تحسنوا إليهن في كسوتهن وطعامهن. هذا حديث حسن صحيح.
صحیح مسلم/جلد:2/صفحہ:697، باب بيان أن اسم الصدقة يقع على كل نوع من المعروف،ط:دار إحياء التراث العربي – بيروت:
عن أبي ذر أن ناسا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، ذهب أهل الدثور بالأجور يصلون كما نصلي، ويصومون كما نصوم، ويتصدقون بفضول أموالهم، قال: " أوليس قد جعل الله لكم ما تصدقون؟ إن بكل تسبيحة صدقة، وكل تكبيرة صدقة، وكل تحميدة صدقة، وكل تهليلة صدقة، وأمر بالمعروف صدقة، ونهي عن منكر صدقة، وفي بضع أحدكم صدقة، قالوا: يا رسول الله، أيأتي أحدنا شهوته ويكون له فيها أجر؟ قال: «أرأيتم لو وضعها في حرام أكان عليه فيها وزر؟ فكذلك إذا وضعها في الحلال كان له أجر»."
سنن الترمذي ت بشار (2/ 456) دار الغرب الإسلامي، بيروت:
عن قيس بن طلق، عن أبيه طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته، وإن كانت على التنور. هذا حديث حسن غريب.
صحيح البخاري (4/ 116) دار طوق النجاة:
عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان عليها لعنتها الملائكة حتى تصبح»
رياض الصالحين (ص: 112) دار ابن كثير للطباعة والنشر:
وفي رواية قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: «والذي نفسي بيده ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشه فتأبى عليه إلا كان الذي في السماء ساخطا عليها حتى يرضى عنها».
سنن الترمذي ت بشار (2/ 457) دار الغرب الإسلامي، بيروت:
 عن أم سلمة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة ماتت وزوجها عنها راض دخلت الجنة. هذا حديث حسن غريب.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

18/رجب المرجب 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب