021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پل صراط کی حقیقت کے بارے میں سوال
79502حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

1۔قَالَ أَبُو سعيد بلَغَنِي أَنّ الْجِسْر أدقّ من الشعْرة وَأحدّ من السيْفِ ‏

(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 360)

اس روایت میں جو پلِ صراط کے بارے میں بات درج ہے کہ وہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔سوال یہ ہے کہ یہاں حقیقی بال اور تلوار مرادہے یا صرف بطور مثال بیان کیا گیا ہے؟ اس بارے میں ذرا وضاحت فرمائیں۔

2۔حکیم الاسلام مولانا قاری طیبؒ نے پل صراط کے بارے میں فرمایا ہے کہ:

"راستہ تو ایک ہی ہوگا،لیکن اتنا وسیع ہو گا کہ لاکھوں چلیں گے، مگر ایک دوسرے کے لیے آڑ نہیں بنے گا،جس طرح دنیا میں ہزاروں انسان شریعت پر چل رہے ہیں، شریعت کا راستہ تو ایک ہے، مگر ایک دوسرے کے لیے آڑ نہیں بنتا۔ بال اور تلوار سے تو ایک مثال کے طور پر سمجھایا گیا ہے، ورنہ حقیقی بال اور تلوار مراد ہوتو چلنا ہی مشکل ہو جائےگا۔

جیسے دیدارِ خداوندی کے بارے میں مثال دی گئی کہ مثل قمر لیلۃ البدر جیسے اندھیری رات کا چاند چمک رہا ہو لاکھوں انسان ایک وقت میں دیکھیں گے، مگر ایک کے دیکھنے میں دوسرا خارج نہ ہو گا، لہٰذا بال اور تلوار کو شاہد پر قیاس کرنا ہی غلط ہے، یہ مطلب نہیں ہےکہ حقیقت میں بال سے زیادہ باریک ہو گا، بلکہ اس سے شریعت کی استقامت مراد ہےتلوار سے مراد نزاکت ہے۔"

 (مجالس حکیم الاسلام،ج1 ، ص 367، ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ ملتان ، 1417ھ)

حکیم الاسلام مولانا قاری طیبؒ نے پل صراط کے بارے میں جو فرمایا ہے کہ یہاں حقیقی بال اور تلوار مراد نہیں ہے بلکہ مثال کے طور پر مرادہے۔اسکی دلیل کیا ہے؟ علی (صوابی)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایسے امور جن کا تعلق آخرت کے احوال سے ہے ان کے بارے میں قرآن اور احادیثِ مبارکہ میں جو تفصیل بیان فرمائی گئی ہے اسی کو ماننا ضروری ہے، اس کے علاوہ جس چیز کی تفصیل اور حقیقت کو قرآن وحدیث میں بیان نہیں فرمایا گیا اس کے بارے میں غور وخوض کرنا درست نہیں، کیونکہ غیب کے احوال سے متعلق جس چیز کی حقیقت کو بیان کرنے سے وحی خاموش ہے وہاں انسان اپنی فہم اور عقل سے کوئی بات یقینی طور پر معلوم نہیں کر سکتا۔

نیز اس سوال کا شریعت کےاحکام سے بھی کوئی تعلق نہیں، اسی لیے اس کے بارے میں قبراور حشر میں کوئی سوال نہیں کیا جائے گا، اس لیے آدمی کو چاہیے کہ ان غیرضروری  مباحث میں مشغول ہونے کی بجائے اُن اعمال کی طرف توجہ دے جو اس کے ذمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شرعاً واجب کیے گئے  اور ان کے بارے میں  قبروحشرمیں سوال کیا جائے گا، جیسے نماز، روزہ اور زکوة وغیرہ۔

حوالہ جات
متن العقيدة  الطحاوية لأبي جعفر أحمد بن محمد الطحاوي (ص: 52) المكتب الإسلامي، بيروت:
العلم علمان: علم في الخلق موجود وعلم في الخلق مفقود فإنكار العلم الموجود كفر وادعاء العلم المفقود كفر ولا يثبت الإيمان إلا بقبول العلم الموجود وترك طلب العلم المفقود.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

19/رجب المرجب 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب