021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"تم میری طرف سے آزاد ہو” کہنے کا حکم
79576طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

نار مل گفتگو کے درمیا ن بیوی نے شو ہر کو جلا نے کے لیے کہا کہ میری زند گی میں شا ید کو ئی اور اچھا شو ہر مل سکتا تھا ، لیکن اب تو میں تمہا ر ے نکا ح میں ہوں ، تمہا ر ی قید میں ہو ،اب تو کوئی موقع نہیں ہے،تب شوہر نے کہا تم آزاد ہو بھئی، كر سکتے آپ اب بھی،شوہر کا مطلب تھا کہ تم قید میں نہیں، ہمیشہ ہر فیصلہ لینے کے لئے آزاد ہو ، لیکن شو ہر کی نیت نکا ح سے آزاد کرنےنہیں تھی اور نہ ہی طلا ق کی نیت تھی۔

اور نہ ہی بیوی کا طلا ق کا مطا لبہ تھا مجھے ڈر ہے کہ اس سے طلا ق تو واقع نہیں ہو گی، کیونکہ میں وہاں نکاح کی بات کی تھی ۔۔۔۔لیکن میرا ارادہ طلاق مانگنا یا دوسری شادی کرنا نہیں تھا اور میر ے شوہر قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ان کی نیت طلاق کی نہیں تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شوہر کی طرف سے کہا گیا جملہ"تم آزاد ہو" اصل کے اعتبار سے طلاق کے کنائی الفاظ میں سے ہے اور ان  الفاظ کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ الفاظ نارمل حالت میں بولے جائیں اور ان سے طلاق کی نیت نہ کی جائے ، نیز لڑائی جھگڑے اور غصے کی حالت بھی نہ  ہو تو ان سے طلاق واقع نہیں ہوتی، مذکورہ صورت میں  چونکہ لڑائی جھگڑے کی حالت نہیں تھی اور خاوند نے طلاق کی نیت بھی نہیں کی تو ایسی صورت میں فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ عورت طلاق کی نیت نہ ہونے پر خاوند سے قسم لے کر اس کی بات پر اعتماد کر سکتی ہے، لہذا اگر خاوند حنفیہ بیان دے دیتا ہے کہ اس کی طلاق کی نیت نہیں تھی تو اس صورت میں آپ پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

حوالہ جات
الدر المختار شرح تنوير الأبصار (ص: 214) دار الكتب العلمية،بيروت:
(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) - الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب، فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة، والكنايات ثلاث: ما يحتمل الرد، أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنّعي تخمّري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا، ونحو خلية برية حرام بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك،أنت واحدة، أنت حرة، اختاري، أمرك بيدك،
سرحتك فارقتك، لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الاقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال، والقول له بيمينه في عدم النية، ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 404) دار إحياء التراث العربي:
(أنت حرة) عن رق النكاح، أو غيره (تقنعي) أي اتخذي قناعك؛ لأنك بنت أو كنت من الأجنبي (تخمري استتري) ، ولو اكتفى به عن الأولين لفهم الحكم (اغربي) أي ابعدي عني؛ لأني طلقتك، أو لزيارة أهلك ويروى اعزبي من العزوبة وهي التجرد عن الزوج (اخرجي اذهبي) مثل اغربي (قومي) ، ولو اكتفى به عن الأولين لفهم بالطريق الأولى (ابتغي الأزواج) لأني طلقتك أو الأزواج من النساء للمعاشرة (لو أنكر) الزوج (النية) بأن قال: لم أنو طلاقا (صدق مطلقا) أي ديانة وقضاء في جميعها (حالة الرضاء) للاحتمال وعدم دلالة الحال والقول قوله مع يمينه في عدم النية.
وفي المجتبى: فعليه اليمين إن ادعت الطلاق وإن لم تدع أيضا يحلف حقا لله تعالى قال ابن سلمة ينبغي تحليفها إياه فإذا حلفته فحلف فهي امرأته وإلا رافعته إلى القاضي فإن نكل عن اليمين عنده فرق بينهما (ولا يصدق قضاء عند مذاكرة الطلاق).
  النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 356) دار الكتب العلمية:
وعند الفقهاء ما احتمل طالق وغيره (لا تطلق بها) أي: بالكناية يعني قضاء (إلا بالنية) أي: نية الطلاق (أو دلالة الحال) / وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب، أما في الديانة فيصدق بيمينه ويكفي تحليفها له في البيت فإن امتنع رفعته إلى القاضي، فإن نكل فرق بينهما كما مر في (المجتبي)

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

27/رجب المرجب 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب