021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربتِ مطلقہ اور اس میں نفع متعین رقم کی شکل میں طے کرنے کا حکم
76026مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

ایک شخص ہے جو لوگوں سے پیسے لیتا ہے اور پھر وہی پیسے مختلف جگہوں پر پراپرٹی میں انویسٹ کرتا ہے، مگر وہ یہ بات (کہ یہ پیسے کہاں انویسٹ ہوں گے) ان لوگوں کو نہیں بتاتا۔ پھر تین مہینے میں جو نفع ہوتا ہے، اس میں سے آدھا خود رکھ لیتا ہے اور آدھا ان لوگوں کو دیدیتا ہے جن سے اس نے پیسے لیے ہوتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے اس معاملے کی حیثیت کیا ہے؟

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ یہ شخص جن لوگوں سے پیسے لیتا ہے انہیں متعین نفع دیتا ہے، مثلا اگر کوئی اسے دو لاکھ روپیہ دیتا ہے تو یہ اسے کہتا ہے کہ میں آپ کو دو ماہ بعد 20 ہزار نفع دوں گا، کبھی اس سے تھوڑا کم یا زیادہ بھی ہوجاتا ہے۔ اسی طرح لوگوں کو بتاتا ہے کہ اگر نقصان ہوا تو وہ آپ کا ہوگا۔ البتہ انہیں یہ نہیں بتاتا کہ یہ پیسے کہاں انویسٹ کروں گا، لوگوں کی طرف سے بھی اسے اجازت ہوتی ہے کہ کہیں بھی انویسٹ کرسکتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ صورت شرعا مضاربت کہلاتی ہے، مضاربت اس عقد کو کہتے ہیں جس میں ایک شخص (رب المال) کا سرمایہ ہوتا ہے، دوسرا شخص (مضارب) اس سے تجارت کرتا ہے، اور جو نفع آتا ہے وہ دونوں شروع میں طے کردہ تناسب سے تقسیم کرتے ہیں۔ مضاربت میں جب سرمایہ دینے والے لوگ، مضارب کو کسی خاص تجارت تک محدود نہ کریں تو مضارب اس رقم کو ہر جائز تجارت میں لگاسکتا ہے؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں لوگوں کو انویسٹمنٹ کی تفصیل نہ بتانے سے شرعا معاملے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ البتہ مضاربت درست ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ نفع میں رب المال اور مضارب دونوں کا حصہ لم سم یعنی متعین رقم کی شکل میں طے نہ ہو، بلکہ فیصدی تناسب سے طے ہو۔ صورتِ مسئولہ میں چونکہ یہ شخص (مضارب) سرمایہ دینے والوں کے لیے لم سم نفع مقرر کرتا ہے، اس لیے اس کی وجہ سے عقد فاسد ہوجائے گا۔

نفع مقرر کرنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ یہ شخص لم سم نفع مقرر کرنے کے بجائے سرمایہ دینے والے کے لیے نفع کا فیصدی حصہ مقرر کرے، مثلا سرمایہ دینے والے سے کہے کہ جو نفع ہوگا، اس کا  پچاس فیصد آپ کو دوں گا اور پچاس فیصد میں لوں گا۔

واضح رہے کہ نفع کی تقسیم کے لیے حاصل ہونے والے نفع کا کوئی فیصد طے کرنا ضروری ہے، سرمایہ کا تناسب مثلا ایک لاکھ پر دس فیصد نفع طے کرنا جائز نہیں؛ کیونکہ ایک لاکھ کے دس فیصد کا مطلب دس ہزار روپے ہے جوکہ لم سم رقم ہے۔ البتہ اگر عقد کرتے وقت ان دونوں (اس شخص اور پیسے دینے والے) کا نفع میں حصہ، نفع کے فیصدی حصوں کی شکل میں طے ہو، اس کے بعد یہ شخص اپنے تجربے کے پیشِ نظر سرمایہ دینے والے کو اس کے سرمایہ کے لحاظ سے صرف ایک اندازہ بتادے کہ عام طور پر اتنی مدت میں (مثلا) دو لاکھ پر پچاس فیصد نفع بیس ہزار بن جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن نفع کی تقسیم اسی فیصدی تناسب سے ہوگی جو عقد میں طے کی گئی ہو، حاصل ہونے والا نفع کم ہو یا زیادہ۔

حوالہ جات
المجلة (ص: 271):
مادة 1406: المضاربة قسمان: أحدهما مضاربة مطلقة، والآخر مضاربة مقيدة.
 مادة 1407: المضاربة المطلقة هي التي لا تتقيد بزمان ولا مكان ولا نوع تجارة ولا بتعيين بائع ولا مشتر، وإذا تقيدت بواحد من هذه فتكون مضاربة مقيدة، مثلا إذا قال: في الوقت الفلاني أو في المكان الفلاني أو اشتر الأموال الفلانية أو عامل فلانا وفلانا أو أهالي البلدة الفلانية فتكون المضاربة مقيدة.
رد المحتار (5/ 660):
الأصل في المضاربة العموم؛ إذ المقصود منها الاسترباح، والعموم والإطلاق يناسبانه.
تبيين الحقائق (4/ 274):
الأصل في المضاربة الإطلاق والعموم.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    10/رجب /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب