021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زوجین کے چند گھریلو مسائل اور بچوں کی کفالت کا حکم
75897جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

شادی کو آٹھ سال گزر گئے ہیں، بیوی نے سسرال والوں کی ہر طرح سے خدمت کی، لیکن نندوں کی لڑائی کی وجہ سے بیوی نے ساس کی خدمت چھوڑ دی۔ وہ صرف شوہر اور بچوں کی خدمت کر رہی ہے ۔

(1) اب صورت حال یہ ہے کہ شوہر زبردستی بیوی سے ساس کی خدمت کروانا چاہتا ہے، کیا یہ صحیح ہے؟

(2) شوہر نے کبھی بیوی کا اس معاملے میں ساتھ نہیں دیا، ہمیشہ اپنی مان اور بہنوں کو ترجیح دی، ساس بہو کو غلام بنا کر رکھنا چاہتی ہے،  شوہر کا صحیح بات پر بیوی کا ساتھ نہ دینا اور بیوی کو غلط بولنا، ہر بات پر بےعزت کرنا کیا یہ صحیح ہے؟

(3) اگر بیوی تنگ آکر الگ ہونا چاہے تو کیا کرنا چاہیے؟ دو بیٹے ہیں وہ کس کے ساتھ رہیں گے؟

(4) اگر بچے ماں کے پاس رہیں گے تو ان کا خرچہ کیا باپ دے گا؟ کیونکہ ماں اکیلی بچوں کو نہیں پال سکتی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1,2) شریعت نے بیوی اور شوہر  کے ایک دوسرے سے  متعلق حقوق اور ان کی شرعی حیثیت  کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور ہر ایک کو ان کی  بجا آوری کا حکم کیا ہے   البتہ ان کےدیگر سسرالی رشتہ داروں   سے تعلق کی بنیاد  حسن اخلاق اور باہمی ہمدردی  پر رکھی ہے اور ان رشتوں کے حقوق  کی ادائیگی میں توازن برقرار رکھنے اور ایک دوسرے پر ظلم کرنے  سے بچنے کا حکم کیا ہے۔  چنانچہ اس ضمن میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جنہیں شریعت نے میاں بیوی پر لازم نہیں کیا لیکن حسنِ معاشرت کے باب میں دیانۃً اور اخلاقاً یہ چیزیں  دونوں کی ایک  دوسرے پر لازم ہیں۔

چنانچہ انہی  میں سے  ایک چیز شوہر کے والدین کی خدمت  بھی ہے، گو کہ بیوی کے ذمہ لازم نہیں ہے لیکن حسن اخلاق اور ہمدردی کے جذبے کے تحت وہ اس سے بری بھی نہیں ہے۔ چنانچہ بیوی کو چاہیے کہ وہ  اپنی ساس کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھے اور معمولی باتوں کو نظر انداز کر کے ان کی خد مت شروع کرے۔ حکیم   الامت  حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی صاحب قدس سرہ فرماتے ہیں :

جب تک ساس خسر زندہ رہیں ان کی خدمت کو، ان کی تابع داری کو فرض جانو، اور اسی میں اپنی عزت سمجھو، اور ساس نندوں سے الگ ہو کر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرو، ساس نندوں سے بگاڑ ہو جانے کی یہی جڑ ہے، خود سوچو کہ ماں باپ نے اسے پالا پوسا اور بڑھاپے میں اس آسرے پر اس کی شادی بیاہ کیا کہ ہم کو آرام ملے اور جب بہو آئی، ڈولے سے اترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑ دیں ۔۔۔ جو کام ساس نندیں کرتی ہیں تو اس کے کرنے سے عار نہ کرو، تم خود بے کہے ان سے لے لو اور کر دو، اس سے ان کے دلوں میں تمہاری محبت پیدا ہو جائے گی،  (بہشتی زیور، حصہ چہارم، نکاح کا بیان)

لیکن اگر کسی بھی وجہ سے بیوی اپنے اس اخلاقی فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی کرتی ہے  تو اس سے شوہر کو یہ حق حاصل نہیں ہو جاتا کہ وہ اپنی بیوی پر اس معاملے میں زبردستی کرے۔ چنانچہ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ اس معاملے میں حد اعتدال سے نکلنے والا ہے۔

ایک بات یہ بھی واضح رہے کہ سسرال میں بیوی کا واحد سہارا اس کا شوہر ہو تا ہے۔ جس طرح شوہر کے ذمہ بیوی کی جان اور مال کی حفاظت ضروری ہے اسی طرح اس  کی عزت  نفس  کی حفاظت  بھی اس کے ذمہ لازم ہے۔ چنانچہ گھریلو معاملات میں بیوی کی جائز باتوں کی رعایت کرنا ا،  اسے تسلیم کرنا اور اس  پر ہونے والے ظلم میں اس کا ساتھ دینا بھی شوہر کے ذمہ لازم ہے چہ جائے کہ خود اسے ہی دشنام ٹھہراتے رہنا ۔ لہذا اگر شوہر ان باتوں کا مرتکب ہوا ہے تو اسے چاہیے کہ الله کے حضور توبہ کرے اور گھریلو معاملات کو ایک بردبار شخص کی طرح سنبھالنے  کی کوشش کرے۔ والدہ اور بہنوں کی غلطی پر ان کو پیار محبت سے سمجھائے اور اپنی بیوی کا دفاع کرے۔

(3) شریعت کی منشاء یہی کہ عورت اور مرد کا یہ پاکیزہ رشتہ مرتے دم تک قائم رہے۔ چنانچہ مناسب یہ ہے کہ خاندان کے بزرگوں اور دیگر سمجھدار افراد کو بٹھا کر گھر کے معاملات کو سلجھایا جائے اور اگر پھر بھی حالات ٹھیک نہیں ہوتے تو اپنے رشتہ کو برقرار رکھنے کیلئے بیوی شوہر سے الگ رہائش کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ طلاق کے خیال کو ذہن سے دور رکھ کر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے، البتہ اگر ایسی نوبت آتی ہے تو  اگر دونوں  بیٹوں کی عمر  سات سال سے کم ہو تو وہ ماں کی پرورش میں رہیں گے البتہ سات سال کی عمر کے بعد اگر والد انہیں اپنے پاس رکھنا چاہے تو اسے اس بات کا شرعی حق حاصل ہو گا۔

(4) بچے ماں کے پاس رہیں یا کسی اور کے پاس ، بہر صورت  ان کے اخراجات ان کے بالغ ہونے تک ان کے والد کے ذمہ ہو ں گے کیونکہ والد  ہی ان کا ولی ہے ۔

حوالہ جات
سنن الترمذي(5/ 709 ت شاكر):
عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌خيركم ‌خيركم ‌لأهله وأنا خيركم لأهلي، وإذا مات صاحبكم فدعوه۔
صحيح مسلم (4/ 178 ط التركية):
عن ‌أبي هريرة : عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: « من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فإذا شهد أمرا فليتكلم بخير أو ليسكت، واستوصوا بالنساء، فإن المرأة خلقت من ضلع، وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه إن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته لم يزل أعوج، ‌استوصوا ‌بالنساء ‌خيرا »
 بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 334):
ومنها المعاشرة بالمعروف، وأنه مندوب إليه، ومستحب قال الله تعالى: {وعاشروهن بالمعروف} [النساء: 19] قيل هي المعاشرة بالفضل والإحسان قولا وفعلا وخلقا قال النبي: - صلى الله عليه وسلم - «‌خيركم ‌خيركم ‌لأهله، وأنا خيركم لأهلي» ، وقيل المعاشرة بالمعروف هي أن يعاملها بما لو فعل بك مثل ذلك لم تنكره بل تعرفه، وتقبله وترضى به، وكذلك من جانبها هي مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان باللسان، واللطف في الكلام، والقول المعروف الذي يطيب به نفس الزوج، وقيل في، قوله تعالى {ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف} [البقرة: 228] أن الذي عليهن من حيث الفضل والإحسان هو أن يحسن إلى أزواجهن بالبر باللسان، والقول بالمعروف، والله عز وجل أعلم۔
ألدر المختار و حاشية ابن عابدين (579/3):
ولا يجوز لها أخذ الأجرة على ذلك لوجوبه عليها ديانة ولو شريفة؛ لأنه - عليه الصلاة والسلام - قسم الأعمال بين علي وفاطمة، فجعل أعمال الخارج على علي - رضي الله عنه - والداخل على فاطمة - رضي الله عنها - مع أنها سيدة نساء العالمين بحر.
وفي حاشيته : (قوله ‌لوجوبه ‌عليها ‌ديانة) فتفتى به، ولكنها لا تجبر عليه إن أبت بدائع.
الفتاوى الهندية :(1/ 548)
وإن قالت: ‌لا ‌أطبخ، ‌ولا ‌أخبز قال في الكتاب: لا تجبر على الطبخ والخبز، وعلى الزوج أن يأتيها بطعام مهيإ أو يأتيها بمن يكفيها عمل الطبخ والخبز قال الفقيه أبو الليث - رحمه الله تعالى - إن امتنعت المرأة عن الطبخ والخبز إنما يجب على الزوج أن يأتيها بطعام مهيأ إذا كانت من بنات الأشراف لا تخدم بنفسها في أهلها.
وفيه  أيضا :(1/ 541)  
أحق ‌الناس ‌بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقة أو مغنية أو نائحة فلا حق لها هكذا في النهر الفائق. ولا تجبر عليها في الصحيح لاحتمال عجزها إلا أن يكون له ذو رحم محرم غيرها فحينئذ تجبر على حضانته كي لا يضيع بخلاف الأب حيث يجبر على أخذه إذا امتنع بعد الاستغناء عن الأم كذا في العيني شرح الكنز

محمد انس جمیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

‏8، رجب المرجب 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب