021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک زوجہ ، دو لڑکے اور پانچ لڑکیوں میں میراث کی تقسیم
75902میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم ، ایک صاحب کا انتقال ہوا،ترکہ  میں جائیداد اور ذاتی کیمیکل کا کاروبار چھوڑا ہے،ورثہ میں ایک زوجہ ، دو لڑکے اور پانچ لڑکیاں ہیں، چند سوالات کے جوابات درکار ہیں:

(1)ورثاء کے شرعی حصہ کا تعین کر دیں۔(2)کاروبار میں ورثہ کے شرعی حصہ کا تعین کیسے کیاجائے؟ رہنمائی فرمائیں۔(3)موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کاروباری  لین دین اور گھریلو اخراجات اسی طرح پورے کیے جارہے ہیں، جس طرح مرحوم کی زندگی میں ہوتے تھے، آیا ایسا کرنا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)ورثہ میں محض ایک  بیوی ، دو بیٹیاں اور پانچ بیٹے ہونے کی صورت  تقسیم میراث کا طریقہ یہ ہے کہ میت کے کل ترکہ کو 72 برابر حصوں میں تقسیم کر دیا جائے  جن میں سے میت کی  بیوی کو9   حصے ، میت کی ہر ایک  بیٹی  ک کو7 حصے اور میت کے ہر بیٹے14 کو حصے دے دیےجائیں۔

فیصد کے اعتبار سے تقسیم یوں ہو گی کہ  میت کی کل میراث میں سے میت کی بیوی کو12.5% ، میت کی ہرایک  بیٹی کو مستقل طور پر 9.72%    اور میت کے ہر بیٹے کو علیحدہ علیحدہ  19.4% دیا جائیگا۔

ذیل کے نقشے میں یہ تفصیل مزید وضاحت سے دکھائی گئی ہے:

            نمبر شمار                   

ورثہ

عددے حصے

فیصدی حصے

1

میت کی بیوی

9

12.5%

2

میت کی بیٹی1

7

9.72%

3

میت کی بیٹی2

7

9.72%

4

میت کی بیٹی3

7

9.72%

5

میت کی بیٹی4

7

9.72%

6

میت کی بیٹی5

7

9.72%

7

میت کا بیٹا 1

14

19.4%

8

میت کا بیٹا 2

14

19.4%

(2)فیصد کے اعتبار سے کاروبار میں ورثہ کے شرعی حصہ کا تعین بھی  اسی ذکر کیے گئے طریقے کے مطابق کیا جائیگا کہ  کاروبار میں میت کی بیوی 12.5% ، میت کی ہرایک  بیٹی مستقل طور پر 9.72%    اور میت کا  ہر بیٹا علیحدہ علیحدہ  19.4% کا حصہ دار اور شریک (PARTNER) ہو گا۔ تمام ورثہ اگر کاروبار   کو جاری رکھنا چاہتے ہوں تو اس صورت میں نفع کی شرح کو متعین کرنا ضروری ہے ، اور نفع کی شرح باہمی اتفاق سے کچھ بھی طے کی جا سکتی ہے بشرطیکہ اس شریک کے لیے جس پر کام نہ کرنے کی شرط لگائی گئی ہو اس کے کاروباری حصے کے تناسب سے زیادہ نفع  مقرر نہ کیا جائے،البتہ نقصان ہر شریک  کو اپنے کاروباری حصے کے تناسب سے ہی برداشت کر نا ہو گا۔

کاروبار میں پیسوں کے لحاظ سے  ورثہ کا شرعی حصہ متعین کرنےکےلیے   یا تو کاروبار کو مکمل طور پر ختم کر کے اس کےتمام اثاثوں کو  نقد میں تبدیل کرنے کے بعد  اس رقم کو ذکر کیے گئے فیصدے حصے کے مطابق تمام ورثہ کے درمیان  تقسیم کر دیا جائے یا پھر کاروبار   کے تمام اثاثہ جات کی مارکیٹ ویلیو لگا لی جائے اور پھر  جو وارث کاروبار سے علیحدگی  اختیار کر کے اپنا حصہ الگ سے لینا چاہے اسے  اس کے حصے کے تناسب سے رقم ادا  کر دی جائے۔

یا د رہے کہ کاروبار کے اثاثوں میں اگر  کچھ دیون ہوں تو ان کو اس طرح تقسیم میں شامل کرنا جائز نہیں کہ  کسی کو اس کے حصے میں مکمل یا کچھ دیون دے کر یہ کہا جائے کہ انہیں تم وصول کر لو ، بلکہ دیون کو مشترک رکھا جائیگا اور جب  وہ وصول ہوں گے تو تب انہیں تقسیم کیا جائیگا۔

(3)میت  کی وفات سے ہی اس کے متروکہ مال میں ہر وارث کا حصہ اور حق متعین ہو جاتا ہے ، اور ہر وارث شریعت کی طرف سے اس کےلیے طے کیے گئے حصہ کا مالک بن جاتا ہے، چنانچہ  تمام ورثہ باہمی اتفاق  و رضامندی سے  میت کے متروکہ مال  سے نفع اٹھانے کی کوئی بھی  ترتیب بنا سکتے ہیں اور ایسا کرنا  شرعا  جائز  اور درست ہے، البتہ اگر کوئی وارث متروکہ مال کو   تقسیم کرنے کا مطالبہ کرے  تو اس صورت میں میراث تقسیم کرنا شرعا لازم ہے، اور میراث تقسیم کیے بغیرکسی بھی وارث کے لیے مال متروکہ میں سے  اپنے حصے سے زائد نفع وصول کرنا جائز نہیں ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں تمام ورثہ کی رضامندی و اجازت سے کاروباری  لین دین اور گھریلو اخراجات اسی طرح پورے کرنا درست اور جائز ہے جس طرح مرحوم کی زندگی میں  ہوتے تھے، البتہ  کسی بھی ایک وارث کی اجازت و رضامندی کے بغیر ایسا کرنادرست نہیں بلکہ ناجائز ہے، کیونکہ اس صورت میں  دوسرےوارث کا حق استعمال  کرنے کا اندیشہ پیدا  ہو جاتا ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 769)
(فيفرض للزوجة فصاعدا الثمن مع ولد أو ولد ابن) وأما مع ولد البنت فيفرض لها الربع (وإن سفل والربع لها عند عدمهما) فللزوجات حالتان الربع بلا ولد والثمن مع الولد.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 773)
فصل في العصبات العصبات النسبية ثلاثة عصبة بنفسه وعصبة بغيره وعصبة مع غيره (يحوز العصبة بنفسه وهو كل ذكر) فالأنثى لا تكون عصبة بنفسها بل بغيرها أو مع غيرها (لم يدخل في نسبته إلى الميت أنثى) فإن دخلت لم يكن عصبة كولد الأم فإنه ذو فرض وكأبي الأم وابن البنت فإنهما من ذوي الأرحام (ما أبقت الفرائض) أي جنسها (وعند الانفراد يحوز جميع المال) بجهة واحدة. ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل).
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 260)
(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها للعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض.في المجتبى: حانوت لهما يعملان فيه طلب أحدهما القسمة إن أمكن لكل أن يعمل فيه بعد القسمة ما كان يعمل فيه قبلها قسم وإلا لا.

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۰ رجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب