021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شرکت میں نقصان کا حکم
76037شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

تاریخ : 13 جنوری 2022

بسلسلہ شراکت داری

مابین عبد المالک صاحب جو کیمیکل کا کاروبار کرتے ہیں اورنور الدین جو خواتین انویسٹرز کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کے امانت دارہیں2016  سے 2019  کے درمیان مبلغ  چالیس(40) لاکھ  اور بیس(20) لاکھ (کل 60 لاکھ ) مختلف اوقات میں  عبد المالک صاحب نے نورالدین سے وصول کیے۔

الف) 40 لاکھ کی رقم  سے2%  ماہانہ کے لحاظ سے منافع نورالدین  کو ادا کیا گیا، جولائی2021  میں32000 کا چیک ادا  کر کے  جون  2021تک نفع کا حساب چکتہ ہوا۔

 ماہ اگست 2021سے دوبارہ   2%نفع کی اداائیگی شروع ہوئی جو نومبر  تک جاری رہی۔

ب) 20لاکھ کی انویسٹمنٹ3  ماہ کی بنیاد پر تھی  تا ہم اس کا نفع  3سے4 ماہ  بعد مبلغ 150,000روپے ادا کیا جاتا رہا۔

مورخہ15 دسمبر2021 عبدالمالک صاحب نے20+40 ( کل60 لاکھ) کی انویسٹمنٹ  پر نفع ادا کرنے سے انکار کر دیا  اور اصل رقم کی نامکمل واپسی  (50%) 6سے8 ماہ کے درمیان  ادا کرنے کا عندیہ دے دیاہے۔

نوٹ: مندرجہ بالا تحریر سے دونوں متفق ہیں ماسوائے50%  کی واپسی کے جو کہ نورالدین صاحب کا موقف  نہیں ہے۔

تاریخ :17 جنوری2022

تحریر مورخہ13 جنوری2022 متعلقہ انوسٹرز کے سامنے رکھی گئی تو ان کا یہ موقف سامنے آیا:

)اصل رقم میں کٹوتی یا تخفیف قابل قبول نہیں۔

) نومبر 2021تک ادائیگی ہو رہی تھی تو اچانک15 دسمبر 2021کو کیا مسئلہ درپیش ہوا؟مکمل تفصیلات اور حساب کتا ب درکار ہیں کہ اس کی نوبت کیوں آئی؟

جناب مفتی صاحب مندرجہ بالا تحریر سے متعلق چند سوالات کے جوابات درکار ہیں:

  1. عبدالمالک صاحب کوئی حساب کتا ب دینے کو تیار نہیں، آیا ان کا موقف درست ہے یا نہیں؟
  2. عبد المالک صاحب کاموقف ہےکہ اثاثے فروخت کر کے  ادائیگی ہوگی، اثاثوں کی قانونی تفصیلات جسے عرف عام میں ویلتھ سٹیٹمنٹ  کہا جاتا ہے ظاہر کرنے سے قاصر ہیں، آیا ان کا موقف درست ہے یا نہیں؟
  3.  خواتین اس سے  ناخوش ہیں، ان کا سوال ہے کہ50%  لیا جائے یا  100%اللہ  کی عدالت کےلیے چھوڑ دیا جائے؟

وضاحت از مستفتی: خواتین انویسٹرز کی حیثیت سلیپنگ پارٹنر کیتھی اور میں ان کا وکیل تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کاروبار کے دوران ایک شریک ان تمام شرائط کا پابند ہوتا ہے جو اس پر دوسرے شرکاء، شریعت یا اس کے زمانے کے عرف  کی طرف سے  اس پر لاگو کی گئی ہوں،اور آج کل کے عرف کے مطابق چونکہ  ہربڑا کاروبارحساب کتا ب کے لحاظ سے نہایت مرتب ہوتا ہے، اور نفع نقصان کا ہر ایک سودا باقاعدہ تحریر شکل میں موجود  ہوتا ہے  اس لیے عبدالمالک صاحب  کامسلسل نفع دیتے ہوئے اچانک نفع ختم کرنے کے ساتھ ساتھ راس المال یعنی دوسرے شرکاء کی اصل رقم میں سے بھی آدھی رقم  ڈوب جانے کا دعوی کرنا اور حساب کتاب مانگنے پر کسی بھی طرح کی تفصیلات دینے اور ویلتھ سٹیٹمنٹ ظاہر کرنے سے انکار کر دینا غیر معقول  موقف ہے جسے کسی صورت درست قرار نہیں دیاجا سکتا، البتہ صورت مسئولہ میں چونکہ محض ایک فریق کاموقف بیان کیا گیا ہے اور دوسرے فریق کا موقف معلوم نہیں ہے اس لیے اس معاملہ کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا ، لہذا   مناسب  یہی ہے کہ دونوں فریق کسی ایسے جرگے یا پنچائیت میں اپنے اس معاملہ کو پیش کر کے حل کروائیں جس میں کم سے کم ایک مستند مفتی بھی موجود ہو،پنچائیت اور جرگہ مدعی سے گواہ لے کر یا پھر مدعی کے پاس گواہ نہ ہونے کی صورت میں مدعی علیہ سے قسم لے کر فیصلہ کرے گا لہذا فریقین اسی فیصلے کے مطابق عمل کرنےکے پابند ہوں گے۔

خواتین کے لیے مشورہ یہ ہے کہ جتنی رقم مل رہی ہے وہ ضرور لیں اور باقی کا حساب اگر کسی بھی صورت ممکن نہ ہو تو  اللہ تعالی کی عدالت کے لیے چھوڑ دیں، اگر عبدالمالک صاحب   نے کوئی دھوکہ  کیا ہو گا  تو اللہ کی عدالت میں وہ ظاہر  ہو جائیگا۔

حوالہ جات
الموسوعة الفقهية الكويتية (38/ 87)
تفق الفقهاء على أنه إذا اختلف العامل ورب المال في تلف المال، بأن ادعاه العامل وأنكره رب المال. فالقول قول العامل لأنه أمين والأصل عدم الخيانة.قال النووي: يصدق العامل بيمينه، هذا إذا لم يذكر سبب التلف ولا يكلف بيان سببه، أما إذا ذكر سبب التلف وكان السبب خفيا كالسرقة صدق بيمينه، وإن ادعاه بسبب ظاهر كالحريق والغارة والسيل فإن لم يعرف ما ادعاه بتلك البقعة لم يقبل قوله في الهلاك به، وإن عرف بالمشاهدة أو الاستفاضة، نظر إن عرف عمومه صدق بلا يمين وإن لم يعرف عمومه واحتمل أنه لم يصب مال المضاربة صدق باليمين.
فتاوى الشبكة الإسلامية (12/ 7555، بترقيم الشاملة آليا)
وعلى كل حال؛ سواء قلنا إن المضارب وكيل أو قلنا إنه شريك فإنه لا يضمن ما لم يتعد أو يفرط وهو محمول على الأمانة، والأمانة مقتضاها تصديقه والرجوع إلى قوله لو ادعى تلفا أو خسارة.
قال السرخسي، وهو حنفي: ولو قال المضارِب في مرضه قد ربحت ألف درهم ووصلت إلي فضاع المال كله، وكذبه رب المال، فالقول قول المضارب مع يمينه لأنه أمين ...
وقال خليل بن إسحاق في مختصره، وهو مالكي: والقول للعامل في تلفه وخسره.
وقال الإمام النووي، وهو شافعي: ويصدق العامل بيمينه في قوله لم أربح..... وفي دعوى التلف.وقال ابن قدامة، وهو حنبلي: وكذلك القول قوله فيما يدعيه من تلف المال أو خسارة، وما يُدَّعَى عليه من خيانة وتفريط.
فتاوى الشبكة الإسلامية (18/ 1، بترقيم الشاملة آليا)
قال الإمام النووي رحمه الله: ويصدق العامل بيمينه في قوله لم أربح ودعوى التلف. انتهى.
وقال ابن قدامة في المغني: والعامل أمين في مال المضاربة، فعليه؛ فالقول قوله فيما يدعيه من تلف المال أو خسارة فيه. انتهى.

سعدمجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۱ رجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب