021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک بیوی،دو بیٹے، دو بیٹیاں اور ماں، باپ کے درمیان تقسیم میراث
76027میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

جناب مفتی صاحب السلام علیکم۔۔۔ مفتی صاحب ہم دو بھائی ہیں، ہمارے والد رحیم نواز نے  1994میں ایک لاکھ پچیس ہزار کی دوکان خریدی پٹھان کالونی میں ، میرے چچا احمد نواز  میرے والد رحیم نواز کے شاگرد تھے، رحیم نواز کی پرجوش محنت اور لگن سے کام اچھا چلنے لگا، پھر رحیم نواز نے مشینیں خریدنے کے لے اپنی اہلیہ، والدہ اور بڑی بھابھی کا زیور بیچا،28 اکتوبر1999 کو رحیم نواز کا انتقال ہو گیا، انتقال سے پہلے احمد نواز کے تنخوادہ نہ دینے کی وجہ سے احمد نواز کے والد  نے اسے دکان سے ہٹا دیا تھا، رحیم نواز نے انتقال سے پہلے جو زیور بیچا تھا تو اپنی اہلیہ اور والدہ کو وہ زیور بنوا  کر دے دیا تھا اور انتقال کے وقت بڑی بھابھی نے اپنا زیور معاف کر دیا تھا، رحیم نواز کے انتقا ل کے بعد رحیم نوازکی  تمام اشیا ء  یعنی دوکان وکاروبار، موٹر سائیکل، اسلحہ مع لائسنس ، راڈو گھڑی  اور سونے کی چین احمد نواز کو دے دی گئی۔

1999 میں رحیم نواز کے انتقال کے بعد ہم احمد نواز کے ساتھ رہتے تھے اور احمد نواز کے گھر والوں کے ساتھ صرف دو ٹائم کا کھانا کھاتے تھے تک،اس کے علاوہ احمد نواز کوئی خرچہ نہیں کرتے تھے، کے بعد ہم اوپر والے پورشن میں شفٹ ہو گئے، پھر احمد نواز ہمیں آدھا کلو دودھ لے کر دیا کرتے تھے2019 تک، اور2015 تک ہم دونوں بھائیوں کو عید الفطر کی چپل دلاتے تھے۔

آج ہم دونوں بھائی جوان ہو گئے ہیں اور اپنا حصہ مانگ رہے ہیں، مہربانی فرما کر شریعت کی رو سے فتوی جاری کیجیے کہ  ہمار ا حصہ بنتا ہے کہ نہیں؟ اور اگر بنتا ہے تو کس حساب سے بنتا ہے؟

وضاحت از مستفتی: رحیم نواز کے انتقال کے وقت ان  کی اولاد میں ایک بیٹا ، اور دو بیٹیاں موجود تھیں، جبکہ ایک بیٹا ابھی حمل کی صورت   میں تھا جس کی ولادت رحیم نواز کی وفات کے تین ماہ بعد ہوئی، اسی طرح  رحیم نواز کے انتقا ل کے وقت اس کی ایک بیوی،  ماں ، باپ ،  چار بھائی اور دو بہنیں موجود تھیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرعی لحا ظ سے صورت مسئولہ میں رحیم نواز کی طرف سے چھوڑے گئے  کل ترکہ کو ایک سو چوالیس(144) برابر حصوں میں تقسیم کیا جائیگا، جس میں سے  چوبیس(24) حصے رحیم نواز کی  ماں کو ، چوبیس(24) حصے رحیم نواز کے  باپ کو، اٹھارہ (18) حصے رحیم نواز کی بیوی کو ، چھبیس(26) حصے رحیم نواز کے بڑے بیٹے کو ، چھبیس(26) حصے رحیم نواز کے  چھوٹے بیٹے کو ، تیرہ (13)حصے رحیم نواز کی بڑی بیٹی کو اور تیرہ (13)حصے رحیم نواز کی چھوٹی بیٹی کو دیے جائیں گے۔

فیصدی اعتبار سے رحیم نواز کے کل ترکہ کا   16.67%رحیم نواز کی ماں کو،16.67% رحیم نواز کے باپ کو، 12.5% رحیم نواز کی بیوی کو ،18.06% رحیم نوازکے بڑے بیٹے کو، 8.06% 1رحیم نواز کے چھوٹے بیٹے کو، 9.028%رحیم نواز کی بڑی بیٹی کو اور9.028% رحیم نواز کی چھوٹی بیٹی کو دیا جاِئیگا۔

ذیل کے نقشے میں یہ تفصیل مزید وضاحت سے دیکھی جا سکتی ہے:

نمبر شمار

ورثہ

عددے حصے

فیصدی حصے

1

میت کی ماں

24

16.67%

2

میت کا باپ

24

16.67%

3

میت کی بیوی

18

12.5%

4

میت کا  بڑا بیٹا

26

18.06%

5

میت کا چھوٹا بیٹا

26

18.06%

6

میت کی بڑی بیٹی

13

9.028%

7

میت کا چھوٹی بیٹی

13

9.028%

نوٹ : صورت مسئولہ میں میت کے بہن بھائیوں کو وراثت میں سے شرعا کوئی  حصہ نہیں ملے گا۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 769)
(فيفرض للزوجة فصاعدا الثمن مع ولد أو ولد ابن) وأما مع ولد البنت فيفرض لها الربع (وإن سفل والربع لها عند عدمهما) فللزوجات حالتان الربع بلا ولد والثمن مع الولد.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 773)
فصل في العصبات العصبات النسبية ثلاثة عصبة بنفسه وعصبة بغيره وعصبة مع غيره (يحوز العصبة بنفسه وهو كل ذكر) فالأنثى لا تكون عصبة بنفسها بل بغيرها أو مع غيرها (لم يدخل في نسبته إلى الميت أنثى) فإن دخلت لم يكن عصبة كولد الأم فإنه ذو فرض وكأبي الأم وابن البنت فإنهما من ذوي الأرحام (ما أبقت الفرائض) أي جنسها (وعند الانفراد يحوز جميع المال) بجهة واحدة. ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل).
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 770)
(وللأب والجد) ثلاث أحوال الفرض المطلق وهو (السدس) وذلك (مع ولد أو ولد ابن).
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 772)
(وللأم) ثلاثة أحوال (السدس مع أحدهما أو مع اثنين من الأخوة أو) من (الأخوات) فصاعدا
من أي جهة كانا ولو مختلطين والثلث عند عدمهما وثلث الباقي مع الأب وأحد الزوجين..........(قوله مع أحدهما) أي الولد وولد الابن ذكرا أو أنثى.

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۲ رجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب