021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بالغہ کا خود نکاح کرنے کے بعد عدالتی فیصلے کا حکم
79542طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

ایک لڑکا رات کے وقت ایک لڑکی کو لے کر بھاگ گیا اور انہوں نے عدالت میں جا کر آپس میں نکاح کر لیا، لڑکی کے گھر والوں کو خبر ہوئی تو وہ لڑکی کو واپس لے آئے اور عدالت سے علیحدگی کی ڈگری لے لی، جبکہ لڑکا اس لڑکی کو طلاق اور خلع دینے کے لیے تیار نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ کیا یہ عدالتی فیصلہ  شرعاً معتبر ہے؟ خلع کے کاغذات سوال نامہ کے ساتھ منسلک ہیں۔

وضاحت: لڑکی کے والد نے بتایا کہ لڑکی خود گئی ہے، وہ لڑکے کو مالدار سمجھ کر اس کے دھوکے میں آئی تھی، انہوں نے عدالت میں نکاح نہیں کیا، کیونکہ نکاح نامے پر انہوں نے یکم مئی کی تاریخ لکھی تھی، جبکہ یکم مئی کو عدالتیں بند ہوتی ہیں۔بلکہ ماورائے عدالت لڑکے نے اپنے ماموں وغیرہ کی موجودگی میں نکاح کیا  تھا، جبکہ لڑکی کی طرف سے کوئی وکیل اور ولی موجود نہیں تھا، البتہ نکاح سے پہلے انہوں نے لڑکی کو گھر میں محفوظ رکھا، کسے نے اس کو ہاتھ نہیں لگایا۔

    نیزانہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہمارا خاندان دیندار ہے، ہمارے والد اور دادا دونوں عالم تھے، البتہ لڑکی پانچ وقت کی نمازی نہیں تھی، ناظرہ قرآن پڑھی ہوئی تھی اور اب آٹھویں کلاس میں پڑھتی تھی۔ جبکہ دوسری طرف لڑکا شراب اور افیون وغیرہ کا کاروبار کرتا ہے اور یہ بات گاؤں میں مشہور ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی وضاحت میں مذکور ہے کہ "لڑکی خود گھر سے نکلی ہے اور انہوں نے ماورائے عدالت لڑکے کے ماموں اور ایک دوسرے شخص کی موجودگی میں نکاح کیا ہے" منسلکہ فیصلہ میں مدعی علیہ یعنی شوہر کی طرف سے جوابِ دعوی میں  بھی یہی موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس نے لڑکی کی رضامندی کے ساتھ نکاح کیا ہے۔ایسی صورت میں اگرچہ حنفی مسلک کی رُو سے گواہوں کی موجودگی میں ان دونوں کا نکاح درست ہوگیا تھا، کیونکہ سولہ سال کی عمر میں لڑکی بالغ ہو جاتی ہے اور حنفیہ کے نزدیک بالغہ کا اپنی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں کیا گیانکاح شرعاً منعقد ہو جاتا ہے، اگرچہ  وہ نکاح  ولی کی عدم موجودگی میں ماورائے عدالت کیا گیا ہو۔

لیکن عدالتی فیصلہ کی وجہ سے یہ نکاح کالعدم ہو گیا، جس کی تفصیل یہ ہے کہ سوال کے ساتھ دو فیصلے منسلک  ہیں، ایک شریعت اپیلیٹ بینچ کا فیصلہ ہے، جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ لڑکی کی عمر سولہ سال  سے کم ہے اور قانون کی نظر میں سولہ سال سے کم عمر میں لڑکی کی رضامندی کا اعتبار نہیں، لہذا لڑکے کے اس اقدام پر لڑکی کو زبردستی اغواء کرنے کا حکم لگایا جائے گا۔ جبکہ فیملی کورٹ کے فیصلہ میں سولہ سال سے کم عمر ہونے کی وجہ سے اغواء کے ساتھ یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ نکاح کے وقت لڑکی کا کوئی ولی موجود نہیں تھا، اس لیے لڑکی کا اپنے معتبر ولی کی عدم موجودگی میں کیا گیا نکاح باطل ہے۔

فیملی کورٹ کے مذکورہ فیصلے کی رُو سے ولی کی اجازت کے بغیر کیا گیا نکاح کالعدم شمار ہو گا، کیونکہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اصول لکھا ہے کہ "قضاء القاضي رافع للخلاف" یعنی قاضی کا فیصلہ مجتہدین رحمہم اللہ کے درمیان اختلاف کو ختم کرنے والا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مختلف فیہ مسائل میں قاضی کا فیصلہ مذاہبِ اربعہ میں سے کسی بھی مذہب کے مطابق ہو تواس فیصلہ کی وجہ سے فقہائے کرام رحمہم اللہ کے درمیان اختلاف کالعدم شمارہوتاہےاورقاضی کا فیصلہ شرعاًنافذ اور معتبر ہوتا ہےاور مذاہبِ ثلاثہ یعنی مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک ولی کی اجازت کے بغیر نکاح باطل شمار ہوتا ہے۔

 لہذا صورتِ مسئولہ میں فیملی کورٹ کی طرف سے جاری شدہ فیصلہ مذاہبِ ثلاثہ کے مطابق درست اور نافذ ہے اور شرعاً یہ نکاح کالعدم ہو چکا ہے، لہذا یہ فیصلہ جاری ہونے کی تاریخ سے لڑکی عدت مکمل کر کے دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 287) دار الفكر، بيروت:
نفذ نكاح حرة مكلفة بلا ولي عند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى - في ظاهر الرواية، كذا في التبيين. سئل شيخ الإسلام عطاء بن حمزة عن امرأة شافعية بكر بالغة زوجت نفسها من حنفي بغير إذن أبيها والأب لا يرضى ورده هل يصح هذا النكاح؟ . قال: نعم، وكذلك لو زوجت نفسها من شافعي، كذا في الظهيرية.
ملتقى الأبحر (ص: 488) دار الكتب العلمية بيروت:
نفذ نكاح حرة مكلفة بلا ولي وله الاعتراض في غير الكفو وروى الحسن عن الإمام عدم جوازه وعليه فتوى قاضيخان وعند محمد ينعقد موقوفا ولو من كفو ولا يجبر ولي بالغة ولو بكرا.
الحاوي الكبير (9/ 38) أبو الحسن علي بن محمد بن محمد بن حبيب البصري البغدادي، الشهير بالماوردي (المتوفى: 450هـ) دار الكتب العلمية، بيروت:
[القول في اشتراط الولي في عقد النكاح]
فإن أرادت المرأة أن تنفرد بالعقد على نفسها من غير ولي، فقد اختلف الفقهاء فيه على ستة مذاهب:
مذهب الشافعي منها: أن الولي شرط في نكاحها لا يصح العقد إلا به وليس لها أن تنفرد بالعقد على نفسها، وإن أذن لها وليها سواء كانت صغيرة أو كبيرة، شريفة أو دنية، بكرا أو ثيبا. وبه قال من الصحابة عمر، وعلي، وابن عباس، وابن عمر، وعائشة - رضي الله عنهم. ومن التابعين: الحسن، وابن المسيب، وعمر بن عبد العزيز، وشريح، والنخعي، ومن الفقهاء: الأوزاعي، والثوري، ابن أبي ليلى، وأحمد، وإسحاق.
المغني لابن قدامة (7/ 6) مكتبة القاهرة:
 [فصل:  النكاح لا يصح إلا بولي] مسألة: قال: ولا نكاح إلا بولي وشاهدين من المسلمين في هذه المسألة أربعة فصول:
أحدها: أن النكاح لا يصح إلا بولي، ولا تملك المرأة تزويج نفسها ولا غيرها، ولا توكيل غير وليها في تزويجها. فإن فعلت، لم يصح النكاح. روي هذا عن عمر، وعلي، وابن مسعود، وابن عباس، وأبي هريرة، وعائشة - رضي الله عنهم -. وإليه ذهب سعيد بن المسيب، والحسن، وعمر بن عبد العزيز، وجابر بن زيد، والثوري، وابن أبي ليلى وابن شبرمة، وابن المبارك، وعبيد الله العنبري، والشافعي، وإسحاق، وأبو عبيد.
البيان والتحصيل (10/ 105) أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد القرطبي (المتوفى: 520هـ) دار الغرب الإسلامي، بيروت:
[مسألة: لا نكاح إلا بولي وشهيدي عدل]
قال محمد بن رشد: أما الولي فهو شرط في صحة العقد، وأما الإشهاد فليس بشرط في صحته ولكنه لا يتم عند المناكرة إلا به، فقول عمر بن الخطاب: "لا نكاح إلا بولي وشهيدي عدل" معناه لا نكاح يتم عند المناكرة إلا أن يكون بولي ويشهد عليه شاهدان.
بداية المجتهد ونهاية المقتصد (3/ 36) دار الحديث، القاهرة:
اختلف العلماء هل الولاية شرط من شروط صحة النكاح؟ أم ليست بشرط؟ فذهب مالك إلى أنه لا يكون النكاح إلا بولي، وأنها شرط في الصحة في رواية أشهب عنه، وبه قال الشافعي. وقال أبو حنيفة، وزفر، والشعبي، والزهري: إذا عقدت المرأة نكاحها بغير ولي، وكان كفؤا - جاز.
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (9/ 6572) دار الفكر - سوريّة – دمشق:
الشرط العاشر: حضور الولي:  هو شرط عند الجمهور غير الحنفية، فلا يصح الزواج إلا بولي، لقوله تعالى: {فلا تعضُلوهن أن ينكحن أزواجهن} [البقرة:232/2] قال الشافعي: هي أصرح آية في اعتبار الولي، وإلا لما كان لعضله معنى. ولقوله صلّى الله عليه وسلم: «لا نكاح إلا بولي»  وهو لنفي الحقيقة الشرعية، بدليل حديث عائشة: «أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها، فنكاحها باطل، باطل، باطل، فإن دخل بها فلها المهر بما استحل من فرجها، فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي له»

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

23/رجب المرجب 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب