021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وراثت کی تقسیم
76035میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال نمبر1

مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں شریعت کی رو سے کیا فرماتے ہیں ملوک خان بن دوست محمد کی دو شادیاں تھیں پہلی شادی سے پانچ بیٹے میر عبداللہ نعمت اللہ حفیظ اللہ( جس کی کوئی اولاد نہیں ہے باپ سے پہلے وفات پا چکے تھے ) نادرخان  بازخان  اور چار بیٹیاں  تھیں   جبکہ  دوسری بیوی  سے تین بیٹے شاہد اللہ  حبیب اللہ خان ولی (اور صفی اللہ جو والد کی وفات کے بعد پیدا ہوا ) پانچ بیٹیاں تھیں ملوک خان بن دوست محمد نے اپنی حیات میں سب  زمین کے 9 حصے کیے  پہلا حصہ میر عبداللہ کا دوسرا حصہ نعمت اللہ کا تیسرا حصہ نادر خان کا چوتھا حصہ بازخان کا پانچواں حصہ حفیظ اللہ کاجبکہ دوسری بیوی سےشاہد اللہ کاچھٹا حصہ ( کوئی اولاد نہیں ہے کیونکہ باپ سے پہلے فوت ہوچکے تھے ) حبیب اللہ کا ساتواں حصہ  خان ولی کا آٹھواں حصہ   (صفی اللہ جو والد کی وفات کے بعد پیدا ہوا ) اور پانچ بیٹیاں تھیں اور نواں حصہ ملوک خان  بن دوست محمد نے اپنا کیا،   ملوک خان بن دوست محمد بھی وفات پا گئے  اور ملوک خان بن دوست محمدکی وفات کے بعدمیرعبداللہ بن ملوک بھی وفات پا گئے ان کی وفات کے بعد   باز خان ولد ملوک خان فوت ہو گئے چند سالوں کے بعد دوران حمل باز خان ولد ملوک خان کی بیوی بھی فوت ہو گئی  ان کے بطن سے ایک بیٹی رہی  اس کی پرورش میر عبداللہ کےبیٹے اور بیٹی نے کی بالغ ہونے کے بعد اس بچی کی شادی بھی انہوں نے کروائی،  کیااب میر عبداللہ کی بیٹی نےجواس بچی کو دودھ پلایا اور  دودھ پلانے کے بدلے  اس بچی کی وراثت میں دعوی کر سکتی ہے؟   اسی طرح شادی کروا کر دوسرے خاندان میں دی تقریبا 30 سال بعد اس بچی کو طلاق ہوگئی طلاق کے بعد  تقریبا تیس سال  سےمیر عبد اللہ کے بیٹے کے ساتھ رہ رہی ہے  ۔اس عورت یعنی بنت باز خان بن ملوک  کی وراثت  سب ورثاء  نے آپس میں تقسیم کر رکھی ہے برائے  مہربانی رہنمائی فرمائیں باز خان بن ملوک خان  کی وراثت کیسے تقسیم ہو گی ۔  شریعت کی رو سے جزاک اللہ خیرا ۔

سوال نمبر2

مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں شریعت کے رو سے ملوک خان بن دوست محمد کی دو شادیاں تھی  اپنے تمام بیٹوں کو اپنی زندگی میں اپنی زمین تقسیم کر کےہر بیٹے کو الگ الگ حصہ دیا تھا  مذکورہ بیٹے پہلی بیوی سے5تھے  میر عبداللہ نعمت اللہ نادرخان باز خان حفیظ اللہ جبکہ دوسری بیوی سےتین بیٹے  شاہذ اللہ  حبیب اللہ  خان ولی تھے   ملوک خان بن دوست محمد  فوت ہوگئے ۔مذکورہ آٹھوں بیٹے حیات تھے   کچھ عرصہ کے بعد میر عبد اللہ بن ملوک بھی فوت ہو گئے میر عبد اللہ کے پسماندگان میں بیواجان  ایک بیٹی تقریبا عمر 7 سال  دو بیٹے رعداللہ کی عمر تقریبا چار سال  اور شاہ جہان کی عمر تقریبا  ڈھائی سال تھی  چھوڑے  ، بیوہ جان جو اپنے تینوں یتیم  بچوں کی کفالت کر رہی تھی   ۔ نادر خان جو بیوہ جان کا دیور اور یتیم بچوں کا  سگا چچا تھا  نادر خان  نے  بیوہ جان سےبغیر پوچھے یعنی بغیر رضامندی کے  بیوہ جان اور یتیم بچوں کی زمین  دوسرے مادر سری بھائی حبیب اللہ خان کے دباؤ اور بہلانے پھسلانے  میں آ کر ویش کر دی،حبیب اللہ کا ویش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ زمین کے  ساتھ  راستہ جاتا تھا ویش کرنے کے بعد حبیب اللہ خان نےبیوہ اور یتیم بچوں کا راستہ بھی بند کر دیا ویش میں یتیم بچوں کی  زیادہ یعنی دو گنا زیادہ زمین   لی گئی اور کم زمین بدلے میں دی گئی،حبیب اللہ خان نے اپنے دوسرےسگے بھائی خان ولی کو بھی زمین کے ویش میں شریک کر دیا تھا ویش شدہ زمین اب دونوں بھائیوں کے قبضے میں ہے جبکہ اس وقت سے آج تک اس ویش پر اختلاف  اور لڑائی جھگڑاچلا آ رہا ہے  ،  بیوہ جان نے اپنی زندگی میں اس ویش کو تسلیم کیا نہ اس کی اولاد نے بالغ ہونے کے بعد اس ویش کوتسلیم کیا،شریعت کی روشنی میں اس ویش کو میر عبداللہ کےبچے واپس کر سکتے ہیں کہ نہیں رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء

سوال نمبر3

مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں شریعت کی رو میں کیا فرماتے ہیں ملوک خان بن دوست محمد کی دو شادیاں تھیں پہلی شادی سے پانچ بیٹے میر عبداللہ نعمت اللہ نادر خان باز خان حفیظ اللہ اور چار بیٹیاں تھیں  ان کی والدہ وفات پا چکی تھیں جبکہ دوسری شادی تقریبا سات سال بعد پہلی بیوی کی ایک بیٹی بدلے میں دے کر شادی کی تھی اس دوسری بیوی  سے تین بیٹے شاہذ اللہ حبیب اللہ خان ولی اور پانچ بیٹیاں تھیں ان کی والدہ حیات تھیں . . جبکہ  زمین کی موجودہ صورتحال تین شکلوں میں تھی کچھ زمین پہلی بیوی کا مہر تھی اور کچھ زمین پہلی بیوی کی ایک بیٹی کامال تھی باقی زمین ملو ک خان بن دوست محمد  کی اپنی تھی    ملوک خان بن دوست محمد نے اپنی حیات میں سب  زمین کے 9 حصے کیے  پہلا حصہ میر عبداللہ کا دوسرا حصہ نعمت اللہ کا تیسرا حصہ نادر خان کا چوتھا حصہ بازخان کا پانچواں حصہ حفیظ اللہ کاجبکہ دوسری بیوی سےشاہذ اللہ  حبیب اللہ خان ولی  اور پانچ بیٹیاں تھیں چھٹا حصہ شاہذ اللہ کا ساتواں حصہ حبیب اللہ کا آٹھواں حصہ خان ولی کااور نوواں حصہ ملوک خان  بن دوست محمد نے اپنا کیا  کچھ عرصہ کے بعد پہلی بیوی کا ایک بیٹا حفیظ اللہ اور دوسری بیوی کا ایک بیٹا شاہذ اللہ وفات پا گئے  ان کی وفات کے بعدتقریبا دس پندرہ سال  بعد ملوک خان بن دوست محمد بھی وفات پا گے  اور ملوک خان بن دوست محمدکی وفات کے بعد  دوسری بیوی سے صفی اللہ نامی بیٹا ہوا  ،برائے مہربانی  رہنمائی فرمائیں ملوک خان بن دوست محمد کی وراثت کیسے تقسیم ہو گی شریعت کی رو سے جزاک اللہ خیرا۔

سوال نمبر4

مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں شریعت کی رو سے کیا فرماتے ہیں ملوک خان بن دوست محمد کی دو شادیاں تھی پہلی شادی سے پانچ بیٹے میر عبداللہ نعمت اللہ نادر خان باز خان حفیظ اللہ اور چار بیٹیاں تھیں  ان کی والدہ وفات پا چکی تھی جبکہ دوسری شادی تقریبا سات سال بعد پہلی بیوی کی ایک بیٹی بدلے میں دے کر شادی کی تھی اس دوسری بیوی  سے تین بیٹے شاہذ اللہ حبیب اللہ خان ولی اور پانچ بیٹیاں تھیں ان کی والدہ حیات تھیں،جبکہ  زمین کی موجودہ صورتحال تین شکلوں میں تھی کچھ زمین پہلی بیوی کا مہر تھی اور کچھ زمین پہلی بیوی کی ایک بیٹی کامال تھی باقی زمین ملو ک خان بن دوست محمد  کی اپنی تھی    ملوک خان بن دوست محمد نے اپنی حیات میں سب  زمین کے 9 حصے کیے  پہلا حصہ میر عبداللہ کا دوسرا حصہ نعمت اللہ کا تیسرا حصہ نادر خان کا چوتھا حصہ بازخان کا پانچواں حصہ حفیظ اللہ کاجبکہ دوسری بیوی سےشاہذ اللہ  حبیب اللہ خان ولی  اور پانچ بیٹیاں تھیں چھٹا حصہ شاہذ اللہ کا ساتواں حصہ حبیب اللہ کا آٹھواں حصہ خان ولی کااور نوواں حصہ ملوک خان  بن دوست محمد نے اپنا کیا  کچھ عرصہ کے بعد پہلی بیوی کا ایک بیٹا حفیظ اللہ اور دوسری بیوی کا ایک بیٹا شاہذ اللہ وفات پا گئے  ان کی وفات کے بعدتقریبا دس پندرہ سال  بعد ملوک خان بن دوست محمد بھی وفات پا گئے  اور ملوک خان بن دوست محمدکی وفات کے بعد  دوسری بیوی سے صفی اللہ نامی بیٹا ہوا  ،برائے مہربانی  رہنمائی فرمائیں ملوک خان بن دوست محمد کی وراثت کیسے تقسیم ہو گی شریعت کی رو سے جزاک اللہ خیرا  ۔

سوال نمبر5

مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں شریعت محمدی کی رو سے کیا فرماتے ہیں روشن خان بن نواب خان ظہیر الدین بابر  بن صفی اللہ کے درمیان  اچانک راستے کا تنازع اٹھا جبکہ روشن خان کے پاس سگےدادا نادر خان مادرسری دادا خان ولی جو فوت ہو چکے ہیں گواہی موجود ہے ۔ خاندان کے دوسرے بزرگ اور روشن خان کے ہم عصر سب ہی لوگ  اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ راستہ نادر خان ولد ملوک خان اور اس کے سگے بھائیوں  نے اپنے حصوں سے نکالا تھا جبکہ ملوک خان بن دوست محمدکی دو بیویاں تھیں دونوں بیویوں کی  اولاد کو  اپنی زندگی میں الگ الگ حصہ کی اعتبار سے  زمین تقسیم کرکے دی تھی  راستے کے مغرب  کی جانب پہلی  بیوی کی اولاد کی زمین تھی یعنی میر عبداللہ اور اس کے سگے بھائیوں کی  اور راستے کی مشرق کی جانب دوسری بیوی کی اولاد کی زمین تھی  یعنی حبیب اللہ اور اس کے سگے بھائیوں کی  ، راستہ سب بھائیوں کا مشترکہ تھا یعنی دونوں بیویوں کی اولادوں کا تھا  ملوک خان بن  دوست محمد بعد میں  فوت ہوگئے، ملوک خان بن دوست  محمد کی وفات  کے بعد دوسری بیوی کے بیٹے یعنی حبیب اللہ اور اس کے سگے بھائیوں نے  مغرب والے حصے کا ویش کردیا نادر خان بن ملوک خان کے ساتھ جبکہ یہ حصہ مرحوم میر عبداللہ کی بیوہ اور نابالغ یتیم بچوں کا تھاجو اس ویش پر ہر گز رضامند نہ ہوئے تھے چند سال کے بعد مشترکہ راستہ بھی بند کر دیا گیا  حبیب اللہ خان اور اس کے سگے بھائیوں نے یعنی دوسری بیوی کے بیٹوں نے جبکہ میرعبداللہ مرحوم اور اس کی بیوہ اور نابالغ بچوں اور میر عبداللہ مرحوم کے سگےبھائیوں کے جانور چند ایام مکانات کے اندر بند رہے ، پھرجانوروں کومہربان ولد  نواب قوم متوڑی نےجو پڑوسی اور رشتہ دار تھا اپنی زمین سےعارضی راستہ دیا بند جانور نکالنے اور مکانات میں بند جانوروں کو نکالا گیا  ،اس واقعہ کے بعد جمال  الدین ولد کرم دین قوم چکبری اور باز خان ولد محمد نور قوم متوڑی نے جرگہ کیا پہلی بیوی کے بیٹوں کو کہا،آپ اپنی زمین سے اپنا نیا راستہ نکال دیں جو نادر خان اور اس کے سگے بھائیوں نے نیا راستہ نکال دیا  ،اس واقعہ کو 68سال گزر چکے ہیں یعنی نئے  راستے کو نکالے ہوئے  ،اب نئے راستے کے مشرق کی طرف  حبیب اللہ بن ملوک جو دوسری بیوی سے بیٹا تھا اس کی ویش شدہ   زمین لگتی ہے جو اس نے بغیر رضامندی کے ویش کی تھی،  حبیب اللہ بن ملوک نے اپنی زندگی میں کبھی بھی اس راستے پر اپنا حق نہیں جمایا نہ حبیب اللہ کے کسی سگے بھائی نے حق جمایا  اورحبیب اللہ فوت چکے ہیں اب غالب خان  بن حبیب اللہ بھی اس راستے پر اپنا حق جماتا اور غالب خان  کے سگےکزن ظہیر الدین بابر بن صفی اللہ اپنا نا جائز حق ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہےظہیر الدین بابر کی زمین اس نئےراستے سے ملتی ہی نہیں  ظہیر الدین بابر کے پاس نہ اپنے والد صفی اللہ کی گواہی ہے نہ اپنے چاچا حبیب اللہ کی گواہی ہے نہ اپنے دوسرے چچا خان ولی کی گواہی ہے  اور نا یہ شخص حلف اٹھاتا ہے  بلکہ یہ نور عالم بن مہندی اورمحمد  زمان  بن گلاب پروری  کی گواہی پیش کر رہا ہے جواس راستہ کے تنازعے کے وقت نابالغ تھے یعنی آٹھ سے دس سال کے درمیان ان کی عمریں تھی جبکہ اس جرگہ میں نہ ان کا والد یا خاندان کا کوئی فرد شریک نہیں تھا  ،نور عالم بن مہندی خان محمد زمان بن گلاب خان پروری  یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے والدین سے سنا ہے،  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ محمد زمان اور نور عالم کا تنازع کب کا اور زمین کا  روشن خان ولد نواب خان کے ساتھ چل رہا ہے اور یہ دونوں حضرات روشن خان کے خلاف روشن خان کی غیر موجودگی میں گواہی  دیتے ہیں جبکہ سامنے یہ مکر جاتے ہیں، برائے مہربانی اس پوری صورتحال کی شرعی وضاحت فرمائیں۔

سوال نمبر6

مفتیان عظام  اس مسئلہ کے بارے میں شریعت محمدی کی رو سے کیا فرماتے ہیںمیر عبداللہ بن ملوک نے اپنے  خلع کے  پیسوں سے تقریبا چالیس کنال رقبہ خریدا   جبکہ وہ اپنے سگے اور مادری سری بھائیوں سے الگ تھلگ رہتا تھا یعنی بھائیوں سے نفع نقصان الگ تھا  ، میر عبداللہ کی وفات کے بعد سگے اور مادرسری بھائیوں نے اس خلع کے پیسوں سے خریدے ہوئے  رقبے کو آپس میں تقسیم کر دیا  ، جبکہ میرعبداللہ کے دو بیٹے رعد اللہ اور شاہ جہاں اور ایک بیٹی نابالغ اپنی والدہ یعنی بیوہ میر عبداللہ کی کفالت میں تھے،  ان کو اس زمین کی تقسیم سے کچھ حصہ دیا باقی تمام رقبہ کو سگے بھائیوں   اور مادرسری بھائیوں نے آپس میں تقسیم کر دیا    ،شریعت مطہرہ کی روسے رہنمائی فرمائیں،کیا اس کے سگےبھائیوں اور مادرسری بھائیوں کو اس زمین سے شرعی حصہ  ملتا ہے   ، میر عبداللہ کی یہ زبانی  وصیت ہے زمین صرف اور صرف میرے بچوں کی ہے  ۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جواب نمبر1

سوال کے جواب سے پہلے بطور تمہید کچھ باتوں کا سمجھنا ضروری ہے۔زندگی میں جائداد وغیرہ کی تقسیم ہبہ یعنی گفٹ کہلاتی ہے۔ہبہ یعنی گفٹ کا حکم یہ ہے کہ ہبہ کرتے ہوئےاولاد میں برابری کی جائے یعنی بیٹے اور بیٹیوں، سب کو برابر حصہ دیا جائے،بیٹیوں کو محروم کرنا یا بغیر کسی شرعی وجہ کے  اولاد میں سے کسی کو کم یا زیادہ دینا یہ عمل درست نہیں ہے،نیزہبہ کرتے ہوئے یہ بھی ضروری ہے کہ واہب یعنی ہبہ کرنے والاموہوب لہ(یعنی جس کو ہبہ کیا گیا ہے) کا مالکانہ تصرف کے اختیار کے ساتھ ہبہ کی جانے والی چیز پر مکمل قبضہ کروائے تاکہ ہبہ یعنی گفٹ کی تکمیل شرعی طریقے سے ہوجائے۔لہٰذا زندگی میں اگر اپنی مملوکہ چیزیں اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کا ارداہ ہو تو درج ذیل تفصیل کے مطابق تقسیم کرنا چاہیے۔

  1. اولاد میں خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی برابر حصہ تقسیم کرےاور ہر ایک کو اس کےحصے کا مالک بنا کر باقاعدہ تقسیم کرکے قبضہ کروائے ۔
  2. اگر اولاد میں برابر حصہ تقسیم نہیں کیا اور برابر حصہ تقسیم نہ کرنے کی وجہ، کسی کو نقصان پہنچانا ہے تویہ عمل مکروہ تحریمی ہے ،اگر نقصان پہنچانا مقصود نہیں اور کوئی وجہ ترجیح بھی نہیں تو یہ عمل مکروہ تنزیہی ہے ،اس لیے کہ بہرحال اولاد میں سے ہر ایک کو خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی برابرہبہ( گفٹ) کرنا یہ مستحب ہے۔
  3. اولاد کو ہبہ کرتے ہوئے کسی معقول وجہ سے کمی بیشی کی جاسکتی ہے،مثلاً دینداری، امور دینیہ میں مشغول ہونا،خدمت یا زیادہ محتاج ہونا  وغیرہ اور اس طرح کی وجوہات کی وجہ سے کمی بیشی کرنا  مستحب ہے۔
  4. اگر جائداد مشترکہ طور پر ہبہ کرنے کا ارادہ ہو اور جائداد قابل تقسیم ہو تو باقاعدہ تقسیم کرکے مالک بنا کر قبضہ کروائے تاکہ ہبہ کی تکمیل شرعاً بھی ہوجائے، البتہ اگر جائداد قابل تقسیم نہ ہو تب بھی بہر حال مالک بنا کر باقاعدہ  قبضہ کروانا ضروری ہے، جس کے لیے یہ طریقہ ممکن ہے کہ جو جائداد جن ورثاء کو ایک ساتھ ہبہ کی جائے اُن میں سے کسی ایک کو اس کی تقسیم کا وکیل بنادیا جائے اس طرح اُس وکیل کو تخلیہ کرادینے سے ہبہ مکمل  ہوجائے گا۔

اس تفصیل کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ  باز  خان بن ملوک  خان کے ترکہ میں سے تجہیز و تکفین کے اخراجات، قرض اوربقدر وصیت مال نکالنے کے بعدبشرطیکہ وراثت کے تہائی حصے تک وصیت کی ہو،بقیہ ترکہ کل آٹھ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، ایک حصہ زوجہ کو ملے گا اور سات حصے بیٹی کو ملیں گےاور فیصد کے اعتبار سے 12.50 فیصد زوجہ کو ملے گا  اور 87.50 فیصد بیٹی کو ملے گا۔رہی بات ملوک خان کی یتیم  بیٹی پر کیے گئےاخراجات کی تو اس سلسلے میں شرعاً حکم یہ ہے کہ یتیم بچے کی کفالت(مالی اخراجات وغیرہ) کی ذمہ داری سب سے پہلے یتیم کے دادا پر واجب ہوتی ہے،اگر وہ نہ ہو تو بڑے بھائی کے ذمہ  واجب ہوتی ہے ،وہ نہ ہوں تو چچا کے ذمے اور اگر وہ بھی نہ ہوں تو چچا زاد بھائی کے ذمے واجب ہوتی  ہے ، چنانچہ جو کچھ مذکورہ یتیم بچی پر میر عبد اللہ کے بیٹے نے خرچ کیا ہے وہ  چچازاد بھائی ہونے کی حیثیت سے خرچ کیا ہےلہٰذا مذکورہ یتیم بچی پر خرچ کرتے ہوئے اگر قرض کی صراحت نہیں کی گئی تھی تو اس بچی کو ملنے والی وراثت میں سے، میر عبد اللہ کے بیٹے یا بیٹی کو کسی قسم کے  مطالبے کا حق حاصل نہیں ہوگا ، البتہ جو کچھ یتیم  بچی پر خرچ کیا گیا ہے اس  کا ثواب  ان شاء اللہ ضرور ملے گا،چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا خواہ وہ اس کا رشتدار ہو یا غیر ہو ،جنت میں اس طرح ہوں گے، جیسے یہ دو انگلیاں "۔امام مالک رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت  کے لیے شہادت کی انگلی اور درمیان والی انگلی کو ملاکراشارہ فرمایا"۔

جواب نمبر2,5

کسی کی مملوکہ چیز مالک کی اجازت کے بغیر بیچنا یا اس میں کسی قسم کا مالکانہ تصرف کرنا جائز نہیں ہے،لہٰذا صورت مسؤولہ میں بیوہ جان کی  ملکیت میں جو زمین تھی اس زمین کو اُن کی اجازت کے بغیرویش کرنا(تقسیم کرنا یا بیچنا ) یہ درست عمل نہیں تھا ، لہٰذا مذکورہ زمین بدستور بیوہ جان کی ملکیت میں رہے گی،اور ان کی وفات کے بعد ان کے ورثاء اس زمین کے مالک شمار ہوں گے۔

جواب نمبر3,4

مہر کی ادائیگی شوہر کے ذمہ لازم ہوتی ہے،لہٰذا اگر مہر میں مذکورہ زمین طے ہوئی تھی  تو  یہ زمین پہلی بیوی کی ملکیت شمار ہوگی ،پہلی بیوی کی اجازت کےبغیر اس زمین کی تقسیم درست نہیں تھی،لہٰذا مذکورہ زمین بدستور بیوہ جان کی ملکیت میں رہے گی،اور ان کی وفات کے بعد ان کے ورثاء اس زمین کے مالک شمار ہوں گے، اسی طرح جو زمین  پہلی بیوی کی ایک بیٹی کی تھی وہ زمین بھی اسی بیٹی کی ملکیت شمار ہوگی ،مذکورہ بیٹی کی زندگی میں ان کی اجازت کے بغیر اس  میں میں کسی قسم کا تصرف جائز نہیں تھا،لہٰذا ملوک خان کے لیے یہ جائز نہیں تھا کہ وہ اپنی بیٹی کی اجازت کے بغیر ان کی زمین تقسیم کردیں۔رہی بات بقیہ زمین کی جو ملوک خان کی اپنی ذاتی ملکیت میں تھی اور زندگی میں انہوں نے اس زمین کو تقسیم کرکے قبضہ کروادیا تھا ،اگر اس تقسیم میں بغیر کسی شرعی وجہ کے اولاد میں سے کسی کو محروم کیا تھا  یا کمی بیشی کی تھی تو اس طرح کرنا جائز نہیں تھا لیکن تقسیم معتبر ہوگی اور اولاد میں سے جس کسی کو جو کچھ دیا تھا وہ ان ہی کا حصہ شمار ہوگا۔البتہ مذکورہ بیوی اور بیٹی کی زمین کا جو حصہ ان کی اجازت کے بغیر تقسیم کیا تھا وہ انہیں واپس کرنا ضروری ہوگا۔

اگر زندگی میں صرف تقسیم کی تھی باقاعدہ قبضہ نہیں کروایا تھاتو ایسی صورت میں ملوک خان کی طرف سے اپنی زندگی میں کی گئی تقسیم معتبر نہیں ہوگی اور ان کے انتقال کے بعد ان کے تمام ورثاء  ملوک خان کی مملوکہ  زمین کے شرعی حصص کے اعتبار سےحقدارہوں گے۔

وراثت کے حصوں کی تفصیل یہ ہوگی کہ سائل کے مطابق ملوک خان  کی وفات کے وقت ایک بیوی جو کہ حاملہ تھیں( بعد میں اس  حمل سے ایک بیٹا پیدا ہوا) چار  بیٹے چار بیٹیاں  پہلی بیوی کےاور حمل سمیت تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں دوسری بیوی کے زندہ تھے،خلاصہ یہ ہوا کہ ملوک خان  کی وفات کے وقت کل سات بیٹے ،نو بیٹیاں اور ایک زوجہ  زندہ تھیں،لہٰذا اس تفصیل کے مطابقملوک خان کی زوجہ کو ساڑھے بارہ فیصد (12.50)،سات بیٹوں  میں سے ہر ایک بیٹے کو الگ الگ7.61 فیصد (مجموعہ53.26 فیصد) اور نو بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو الگ الگ3.80 فیصد (مجموعہ 34.24 فیصد) ملے گا۔

جواب نمبر 6

سائل نے بذریعہ واٹساپ وضاحت کی ہے کہ میر عبد اللہ کی وفات کے وقت ان کی  ایک زوجہ ان کے نکاح میں تھیں ،اور اس کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی تھیں ، اس تفصیل کے مطابق  میر عبد اللہ کی میراث میں سے 12.50 فیصد ان کی زوجہ کو ملے گا ،دو بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو الگ الگ پینتیس فیصد ملے گا اور بقیہ ساڑھے سترہ (17.50) فیصد  ان کی بیٹی کو ملے گا۔

 

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (7/ 288)
يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم كذا في المحيط وفي فتاوى قاضي خان رجل أمر شريكه بأن يدفع إلى ولده مالا فامتنع الشريك عن الأداء كان للابن أن يخاصمه إن لم يكن على وجه الهبة وإن كان على وجهها لا لأنه في الأول وكيل عن الأب وفي الثاني لا وهي غير تامة لعدم الملك لعدم القبض وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث هذا خير من تركه لأن فيه إعانة على المعصية ولو كان ولده فاسقا لا يعطي له أكثر من قوته.
عيون المسائل للسمرقندي الحنفي (ص: 350)
التسوية في الهبة بين الابن والابنة
1733. رجل له ابن وابنة فأراد أن يهب لهما شيئاً فالأفضل أن يسوي بينهما في قول أبي يوسف، وقَالَ مُحَمَّدٌ: يجعل للذكر مثل حظ الانثيين. فإن وهب ماله كله للابن؟ قَالَ: هو آثم وأجيزه في القضاء.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696)
وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690)
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 563)
ثم العصبات بترتيب الإرث، فيقدم الأب ثم الجد ثم الأخ الشقيق، ثم لأب ثم بنوه كذلك، ثم العم ثم بنوه.
الموسوعة الفقهية - الدرر السنية (3/ 146، بترقيم الشاملة آليا)
الولاية على الطفل نوعان:
نوع يقدم فيه الأب على الأم، وهي ولاية المال والنكاح.ونوع تقدم فيه الأم على الأب، وهي ولاية الحضانة والرضاع.
صحيح مسلم للنيسابوري (8/ 221)
7660۔حَدَّثَنِى زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الدِّيلِىِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْغَيْثِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « كَافِلُ الْيَتِيمِ لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ أَنَا وَهُوَ كَهَاتَيْنِ فِى الْجَنَّةِ ». وَأَشَارَ مَالِكٌ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 103)
(ومن باع ملك غيره فللمالك أن يفسخه ويجيزه إن بقي العاقدان والمعقود عليه وله وبه لو عرضا).
والأصل فيه أن كل تصرف صدر من الفضولي وله مجيز حال وقوعه انعقد موقوفا على الإجازة عندنا وإن لم يكن له مجيز حالة العقد لا يتوقف ويقع باطلا والشراء لا يتوقف على الإجازة إذا وجد نفاذا على العاقد وإن لم يجد نفاذا يتوقف كشراء العبد والصغير المحجور عليهم.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 770)
فللزوجات حالتان الربع بلا ولد والثمن مع الولد.
الدر المختار للحصفكي (7/ 377)
ويكون الباقي للذكر كالانثيين.

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

14/رجب1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب