021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کئی مرتبہ "میں نے تجھے چھوڑ دیا” کہنے کا حکم
79537طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

میرے شوہر نے کئی مرتبہ مجھے غصب کی حالت میں طلاق کرنے پر درج ذیل الفاظ کہے:

  1. میں نے تجھے ویسے ہی چھوڑ دیا ہے۔ یہ الفاظ کتنی مرتبہ کہے، میرے شمار میں نہیں، کیونکہ اکثر لڑائی کے وقت یہی الفاظ کہتے تھے۔
  2. تو میری طرف سے فارغ ہے۔ یہ الفاظ دو مرتبہ کہے۔
  3. تو میری طرف سے آزاد ہے۔
  4. جا کوئی اور ڈھونڈلے۔
  5. ہم صرف دنیا کے لیے میاں بیوی ہیں۔

یہ جھگڑے آئے دن ہوتے تھے، یہ بھی کہتے تھے مجھ سے طلاق لے لو، دو مرتبہ مجھے اپنے والدین کے گھر چھوڑ آئے اور کہا کہ کل طلاق کے نوٹس بھیج دوں گا، ان جھگڑوں کے دوران ہی ہم کئی مرتبہ اکٹھے رہتے رہے ہیں، اب دس ماہ قبل میں انگلینڈ آئی تو میرے گھر والے مجھے واپس بلا رہے ہیں کہ اس کے ساتھ صلح کر لو۔ کیا اب میں صلح کر سکتی ہوں، جبکہ یہ تمام الفاظ شوہر نے ایک سے زائد مرتبہ کہے ہیں۔

وضاحت: سائلہ نے بتایا کہ تین ماہ کے درمیان عدت گزرنے سے پہلے ہی کئی مرتبہ یہ الفاظ کہہ دیتے تھے، البتہ شوہر اب کہہ رہا ہے کہ میری ان تمام الفاظ سے نیت طلاق کی نہیں تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کیے گئے الفاظ "میں نے تجھے ویسے ہی چھوڑ دیا ہے" اگرچہ اپنی اصل کے اعتبار سے کنایہ ہیں، مگر عرف کی وجہ سے یہ طلاق کے وقوع کے لیے صریح بن چکے ہیں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ الفاظ عام طور پر طلاق کے لیے ہی استعمال کیے جاتے ہیں، اس لیے ان الفاظ میں طلاق کی نیت کا ہونا ضروری نہیں، لہذا شوہر کے یہ الفاظ تین مرتبہ کہنے کی وجہ سے آپ پر تین طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو کر آپ دونوں کے درمیان نکاح ختم ہو چکا ہے، لہذا اب آپ دونوں کے درمیان رجوع نہیں ہو سکتا اور موجودہ صورتِ حال میں دوبارہ نکاح بھی نہیں ہو سکتا۔

البتہ اگر عورت عدت گزارنے کے بعدغیر مشروط طور پر  کسی اور شخص سے نکاح کرے اور وہ خاوند عورت سے ہمبستری بھی کرے، پھر وہ اپنی رضامندی سے عورت کو طلاق دیدےیا وہ وفات پا جائے تو اُس خاوند کی عدتِ طلاق یا عدتِ وفات گزارنے کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ غصے کی حالت میں بیوی سے کہنا تو" میری طرف سے فارغ ہے" یا "میری طرف سے آزاد ہے" کے الفاظ بھی طلاق کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور قرینہٴ طلاق کے وقت ان الفاظ سے بلانیت بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، شوہر کا  طلاق کے اس طرح کے الفاظ کو بار بار کہنا بالکل جائز نہیں تھا، اس لیے مذکورہ شخص پر لازم ہے کہ اس پر قبیح حرکت پر اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ کرے اور آئندہ ایسے الفاظ استعمال کرنے سے مکمل طور پر پرہیز کرے۔

حوالہ جات
رد المحتار مع الدر المختار (ج:3، ص:299) ط: دار الفكر،بيروت:
’’فإن سرحتك كناية، لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح، فإذا قال: "رهاكردم" أي سرحتك، يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضاً، و ما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق، و قد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت.‘‘
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 106) دار الكتب العلمية،بيروت:
ولا خلاف في هذه الجملة إلا في ثلاثة ألفاظ وهي قوله: سرحتك، وفارقتك، وأنت واحدة فقال أصحابنا: قوله: سرحتك وفارقتك من الكنايات لا يقع الطلاق بهما إلا بقرينة النية كسائر الكنايات.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

23/رجب المرجب 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب