021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کا متولی بننے کا حق کسے ہے؟
76051وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں:

ایک شخص مسمی مٹھا خان نے اپنی مملوکہ زمین مولوی غلام قادر کو ہبہ کرکے دی اور اس موہوبہ اراضی پر مولوی غلام قادر نے قبضہ بھی کرلیا بعد ازاں مولوی غلام قادر نے اس موہوبہ اراضی پر بغیر کسی چندے کے مسجد شریف تعمیر کی، اور تقریبا 30 سال تک شریعت کے عین موافق مسجد شریف کے تمام فرائض سر انجام دیتے رہے اور جب وہ اپنے ضعیف العمری کو پہنچے تو انہوں نے مسجد شریف کی تمام ذمہ داریاں اپنے بیٹے مولوی عبدالکریم کے سپرد کردیں اور انہیں مسجد شریف کا متولی بھی مقرر کیا اور اب مؤرخہ 28- 01-2022 مسمی مٹھا خان (واہب) وفات پاچکے ہیں۔

اور اب ورثاء واہب نے عدالت میں یہ دعوی دائر کیا ہے کہ چونکہ موہوبہ اراضی کے واہب ہمارے والدصاحب ہیں تو ہمیں ان کی موہوبہ اراضی پر بصورت وراثت حق ملنا چاہئے اور ہم مسجد کے متولی ہوں گے اب سوال یہ ہیکہ آیا متوفی کے ورثاء استقرار حق اور مسجد کے متولی بننے کیلئے حق رکھتے ہیں یا نہیں؟

اور بحیثیت واہب ہبہ شدہ اراضی میں حق وراثت رکھتے ہیں یا نہیں؟

اور کیا ورثاء واہب میں سے کوئی متولی بننے یا متولی مقرر کرنے کا حق رکھتے ہیں یا نہیں؟

نوٹ: چونکہ یہ مسئلہ عدالت میں زیر سماعت ہے تو لہذا از حد ضرورت ہے براہ مہربانی مسئلے کا تحریری جواب جلد از جلد عنایت فرماکر ممنون ومشکور فرمائیں۔

جزاکم اللہ خیرا کثیرا!

o                                 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب کوئی شخص کسی کو کوئی چیز ہبہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے ہبہ میں رجوع نہ کرے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ہبہ کی ہوئی چیز واپس لے لینے والا قے کرکے اسے پیٹ میں واپس لوٹانے والے کے مانند ہے، لیکن اگر کوئی اپنی ہبہ شدہ چیز واپس لینا چاہے تو اس صورت میں واہب (ہبہ کرنے والا) کو اپنے ہبہ میں کراہت کے ساتھ اس وقت تک رجوع کا حق ہوتاہے جب تک ہبہ شدہ چیز  موہوب لہ (جس نے ہبہ لیا ہے) کی ملکیت میں ہو اور واہب اور موہوب لہ دونوں زندہ ہوں۔ لہذا اگر  ہبہ شدہ چیز موہوب لہ کی ملکیت سے نکل جائے یا  فریقین میں سے کوئی ایک فوت ہوجائےتو ایسی صورت میں واہب کو اپنے ہبہ میں رجوع کرنے کا اختیار نہیں رہتا، نہ واہب کی وفات کی صورت میں اس کے ورثاء کو اس بات کا حق حاصل ہوتاہے کہ وہ ہبہ شدہ چیز واپس لے لیں۔

لہذا صورت مسؤولہ میں جب مٹھا خان نے زمین ہبہ کرکے مولوی غلام قادر کے قبضے میں دیدی تھی تو یہ زمین اس کی ملکیت سے نکل گئی تھی، پھر اس کو رجوع کا حق تھا لیکن جب مولوی غلام قادر نے اس زمین کو وقف کرکے مسجد بنادیا تو یہ زمین مولوی غلام قادر کی ملک سے بھی نکل کر اللہ تعالی کی ملکیت میں چلی گئی،اوروقف کرنے سے خود خود مٹھا خان کے رجوع کا حق بھی شرعا ختم ہوگیا تھا، لہذا جب صورت مسؤولہ میں مولوی غلام قادر نے اپنی حیات میں اس زمین کو مسجد کیلئے وقف کرکے اپنی ملکیت سے خارج کردیا تھااور دونوں فریقین (مولوی غلام قادر اور مٹھا خان) وفات بھی پاچکے ہیں، تو اب واہب کے ورثاء اس مسجد میں وراثت یا رجوع کا کوئی حق نہیں رکھتے۔

نیز یہ کہ جب مولوی غلام قادر نے اپنی حیات میں مسجد کا انتظام وانصرام اپنے بیٹے مولوی عبد الکریم کے حوالے کیا تھا اور انہیں مسجد کا متولی بنایا تھا تو اب مولوی عبدالکریم ہی مسجد کے متولی برقرار رہیں گے، اور انہیں معزول کرکے کسی اور کو متولی بنانے کا اختیارکسی کو حاصل نہیں ہے۔

وقف کردہ زمین میں متولی اور ناظم بنانے کا اختیار صرف اس بندے کو حاصل ہے جو اپنی زمین وقف کر رہا ہو، اگر وقف کرنے والا شخص کسی کو موقوفہ زمین کا متولی بنادے توتا حیات وہی بندہ متولی رہتا ہے الا یہ کہ اس سے کوئی بڑی خیانت ظاہر ہو، مگر ایسے میں بھی صرف حاکم اسے معزول کر سکتا ہے، کسی اور کو اسے مسجد کے تولیت سے ہٹانے کا حق نہیں ہوتا۔

حوالہ جات
   الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 698)
(صح الرجوع فيها بعد القبض) أما قبله فلم تتم الهبة (مع انتفاع مانعه) الآتي (وإن كره) الرجوع (تحريما) وقيل: تنزيها نهاية (ولو مع إسقاط حقه من الرجوع) فلا يسقط بإسقاطه خانية.
 الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 225)
 أما الكراهة فلازمة لقوله عليه الصلاة والسلام: "العائد في هبته كالعائد في قيئه" وهذا لاستقباحه.
  الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 225)
ثم للرجوع موانع ذكر بعضها قال: "أو يموت أحد المتعاقدين"؛ لأن بموت الموهوب له ينتقل الملك إلى الورثة فصار كما إذا انتقل في حال حياته، وإذا مات الواهب فوارثه أجنبي عن العقد إذ هو ما أوجبه.قال: "أو تخرج الهبة عن ملك الموهوب له"؛ لأنه حصل بتسليطه فلا ينقضه، ولأنه تجدد الملك بتجدد سببه.
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 20)
فصل: "وإذا بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه حتى يفرزه عن ملكه بطريقه ويأذن للناس بالصلاة فيه، فإذا صلى فيه واحد زال عند أبي حنيفة عن ملكه" أما الإفراز فلأنه لا يخلص لله تعالى إلا به، وأما الصلاة فيه فلأنه لا بد من التسليم عند أبي حنيفة ومحمد، ويشترط تسليم نوعه، وذلك في المسجد بالصلاة فيه، أو لأنه لما تعذر القبض فقام تحقق المقصود مقامه ثم يكتفى بصلاة الواحد فيه في رواية عن أبي حنيفة، وكذا عن محمد؛ لأن فعل الجنس متعذر فيشترط أدناه. وعن محمد أنه يشترط الصلاة بالجماعة؛ لأن المسجد بني لذلك في الغالب "وقال أبو يوسف: يزول ملكه بقوله جعلته مسجدا" لأن التسليم عنده ليس بشرط؛ لأنه إسقاط لملك العبد فيصير خالصا لله تعالى بسقوط حق العبد وصار كالإعتاق، وقد بيناه من قبل.
                                 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 421)
 (ولاية نصب القيم إلى الواقف ثم لوصيه) لقيامه مقامه، ولو جعله على أمر الوقف فقط كان وصيا في كل شئ خلافا للثاني، ولو جعل النظر لرجل ثم جعل آخر وصيا كانا ناظرين ما لم يخصص، وتمامه في الاسعاف.
 وفی حاشیتہ:
  مطلب ولاية نصب القيم إلى الواقف ثم لوصيه ثم للقاضي
  (قوله: ولاية نصب القيم إلى الواقف) قال في البحر قدمنا أن الولاية للواقف ثابتة مدة حياته وإن لم يشترطها وأن له عزل المتولي، وأن من ولاه لا يكون له النظر بعد موته أي موت الواقف إلا بالشرط على قول أبي يوسف.
 المبسوط للسرخسي (12/ 44)
قال (ولا يجعل القيم من الأجانب ما وجد من أهل بيت الموقف وولده من يصلح لذلك) ؛ لأنه لو لم يذكر هذا الشرط كان للقاضي أن ينصب أجنبيا إذا رأى المصلحة في ذلك ومقصود الواقف أن يكون ذلك في أهل بيته وولده إما ليكون الوقف منسوبا إليه ظاهرا، أو؛ لأن ولده أشفق على وقف أبيه من غيره ويذكر هذا في الكتاب ليتحرز القاضي عن خلاف شرطه.

 محمد نصیر

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 18، رجب المرجب،1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب