021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بالغہ لڑکی کے انکار کی صورت میں نکاح کے انعقاد اور ازدواجی تعلقات کا حکم
79654نکاح کا بیاننکاح صحیح اور فاسد کا بیان

سوال

ایک بالغہ لڑکی کا والد فوت ہو چکا ہے، اس کی والدہ اور چچا نے اس کا نکاح ایک لڑکے کے ساتھ کیا ہے، جبکہ لڑکی نکاح سے پہلے اور نکاح کے بعد مسلسل انکار کر رہی ہے کہ میں اس لڑکے کے ساتھ نکاح نہیں کرنا چاہتی، وہ کہتی ہے کہ میں کبھی بھی اس کے گھر نہیں جاؤں گی، چاہے جو کچھ بھی ہو جائے۔ لڑکی اس لڑکے کو بالکل پسند نہیں کرتی، لڑکا کوئی کام نہیں کرتا اور اس کا والد کراچی میں ایک جگہ مزدوری کرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر اس لڑکی کی زبردستی رخصتی کر دی جائے تو اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب اولاد (خواہ لڑکا ہو یا لڑکی) بالغ ہو جائے تو وہ شرعاً اپنی ذات کے حق میں فیصلہ کرنے میں خود مختار ہوتی ہے، والدین یا کسی اور رشتہ دار کا ان کی ذات کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ ان کی مرضی کے بغیر کرنا شرعاً درست نہیں ہوتا، چنانچہ حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ ایک باکرہ لڑکی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرے والد نے میرا نکاح کر دیا ہے، جبکہ میں اس جگہ نکاح کرنے کو پسند نہیں کرتی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو اختیار دیا کہ وہ نکاح برقرار رکھے یا اس کو ختم کردے۔

بعض دیگر احادیث میں بھی ارشاد ہے کہ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے، ان احادیث سے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے استدلال کیا ہے کہ لڑکی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں لڑکی کے چچا اور والدہ کا اس کی رضامندی کے بغیر کسی بھی جگہ نکاح کرنا شرعاً درست نہیں، لہذا اگر لڑکی نے اپنے ہوش وحواس کی حالت میں اس نکاح کا انکار کر دیا ہے تو وہ نکاح کالعدم اور باطل ہو چکا ہے، اب اگر لڑکی اس نکاح کی اجازت بھی دیدے تو بھی نکاح منعقد نہ ہو گا، کیونکہ سابقہ نکاح لڑکی کے انکار کرنے کی وجہ سے باطل ہو چکا ہے، جو محض لڑکی کے اجازت دینے سے منعقد نہیں ہو گا، لہذا چچا اور والدہ کا زبردستی لڑکی کی اس جگہ رخصتی کروانا ہرگز جائز نہیں، ورنہ سب حضرات اس گناہ میں برابر کے شریک ہوں گے۔

لہذا مذکورہ صورت میں اگر لڑکا دیندار اور لڑکی کا کفو یعنی ہم پلہ ہے تو  لڑکی کو نرمی سے سمجھانے اور راضی کرنے کی کوشش کی جائے اور اس نکاح میں کوئی مصالح ہوں تو وہ بھی اس کو بتائی جائیں، اگر وہ راضی ہو جائے تو دوبارہ نکاح کیا جائے اور اگر لڑکی راضی نہ ہو تو دوسرا مناسب رشتہ تلاش کر کے وہاں نکاح کر دیا جائے، بلاوجہ سابقہ جگہ نکاح کرنے پر لڑکی کو مجبور نہ کیا جائے۔

حوالہ جات
سنن أبي داود ت الأرنؤوط (3/ 436، رقم الحديث: 2096  ) دار الرسالة العالمية:
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا حسين بن محمد، حدثنا جرير ابن حازم، عن أيوب، عن عكرمةعن ابن عباس: أن جارية بكرا أتت النبي - صلى الله عليه وسلم -، فذكرت أن أباها زوجها وهي كارهة، فخيرها النبي - صلى الله عليه وسلم -.   
معالم السنن (3/ 203) المطبعة العلمية – حلب:
قال أبو داود: حدثنا عثمان بن أبي شيبة، قال: حَدَّثنا حسين بن محمد، قال: حَدَّثنا جرير بن حازم عن أيوب عن عكرمة عن ابن عباس أن جارية بكراً أتت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت أن أباها زوجها وهي كارهة فخيرها النبي صلى الله عليه وسلم.
قال الشيخ ففى هذا الحديث حجة لمن لم ير نكاح الأب ابنته البكر جائزاً إلا يإذنها.
 الدر المختار مع حاشية ابن عابدين (3/ 58) دار الفكر،بيروت:
(ولا تجبر البالغة البكر على النكاح) لانقطاع الولاية بالبلوغ (فإن استأذنها هو) أي الولي وهو السنة(أو وكيله أو رسوله أو زوجها) وليها وأخبرها رسوله أو الفضولي عدل (فسكتت) عن رده مختارة (أو ضحكت غير مستهزئة أو تبسمت أو بكت بلا صوت) فلو بصوت لم يكن إذنا ولا ردا حتى لو رضيت بعده انعقد سراج وغيره...........ولو استأذنها في معين فردت ثم زوجها منه فسكتت صح في الأصح بخلاف ما لو بلغها فردت ثم قالت: رضيت لم يجز لبطلانه بالرد، ولذا استحسنوا التجديد عند الزفاف لأن الغالب إظهار النفرة عند فجأة السماع.
قال ابن عابدين: (قوله فسكتت) أما لو قالت حين بلغها قد كنت قلت إني لا أريد فلانا ولم تزد على هذا لم يجز النكاح لأنها أخبرت أنها على إبائها الأول ذخيرة (قوله بخلاف ما لو بلغها إلخ) لأن نفاذ التزويج كان موقوفا على الإجازة، وقد بطل بالرد والرد في الأول كان للاستئذان لا للتزوج العارض بعده، لكن قال في الفتح: الأوجه عدم الصحة لأن ذلك الرد الصريح يضعف كون ذلك السكوت دلالة الرضا اهـ وأقره في البحر.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

یکم شعبان المعظم 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب