021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زمین کی خریداری کے بعد استحقاق ظاہر ہونے کا حکم
76071خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میرے اور زید کے درمیان بڑے بھائی سے بھی زیادہ پیار محبت اور اعتماد تھا؛ وہ میرا ہم زلف ہے، ہم دونوں ایک دوسرے کی ہر خوشی غم میں شریک ہوتے تھے۔ 1996 کے آخر یا 1997 کے اوائل میں  ایک دن زید  میرے پاس بہت ہی پریشانی کے عالم میں آئے کہ قرض دار بہت تنگ کررہے ہیں۔  مجھے آج تیس ہزار روپے کی شدید ضرورت ہے، ان کی پریشانی   مجھ سے برداشت  نہیں ہوئی اور تیس ہزار روپیہ کا بندوبست کردیا۔ اس دوران زید نے کہا کہ میرے مدرسے کے سامنے میرے دو پلاٹ ہیں جن کی   قیمت  ساٹھ ہزار  ہے، آپ مزید  تیس ہزار  مجھے دے دیں، میں وہ دونوں پلاٹ آپ کے نام  لیز کردوں گا۔ یہ پلاٹ  انہوں نے   دو تین بار مجھے دکھائے تھے۔  میں نے مزید تیس ہزار کا بندوبست کرکے ساٹھ ہزار رقم ادا کردی، زید نے لیز کے لیے مزید دس ہزار مانگے جو میں نے ادا کردیئے۔
جب کاغذات دکھائے  تو وہ لیز کے  نہیں،  بلکہ  سند ھ گوٹھ  آباد  سکیم کی سند تھی۔ میں نے زید سے کہا  کہ جناب  یہ کاغذات لیز کے نہیں ہیں تو فرمایا 99 سالہ پکا لیز  ایسا ہی ہوتا ہے ۔ زید نے کہا چلو پلاٹ دیکھیں، پلاٹ مدرسے کے پاس تھا جہاں میرا بیٹا زیرِ تعلیم تھا،  میں نے سوچا بیٹے  سے ملاقات بھی ہوجائے گی، لیکن زید مدرسے کے بجائے  مجھے دور ایک جنگل میں لے گیا جہاں جھونپڑیاں تھیں جو قابضین کا طریقۂ واردات ہوتا ہے، پہلے جھونپڑیاں لگاتے ہیں، بعد میں فروخت کرتے ہیں، اور فرمایا یہ دو پلاٹ آپ کے ہیں،  یہ سوسائٹی ہے، بڑی اچھی جگہ ہے  جو کہ  زید   نے پارٹنروں کے ساتھ  مل کر  قبضہ کی تھی۔ پلاٹ کو دیکھ کر  میں راضی نہیں تھا، صرف خاندانی تعلق، ذاتی شرافت، اور لڑائی سے بچنے کے لیے خاموش ہوا۔ دو تین سال کے بعد  زمین  کے مالک نےقابضین کو بھگا کر زمین فروخت کردی،  اس وقت زید نے کہا  میں آپ کو متبادل جگہ دوں گا، حالانکہ وہ جگہ مجھے صرف دکھائی تھی، قبضہ  نہیں دیا تھا۔ اب تک زید ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے، جگہ قبضہ کی تھی، کاغذات جعلی ہیں، میں نے  اعتماد کی وجہ سے بیچ میں نہ کوئی گواہ ڈالے اور نہ ہی کوئی تحریر لی ۔ براہ کرم شریعت کی روشنی میں بتائیں کہ زید پر میرا حق ہے کہ نہیں ؟

یہ تمام کام  اعتماد اور ظاہری دین داری کی وجہ سے ہوا تھا، باطن کو تو اللہ جانتا ہے کہ  بندہ سچا ہے یا فراڈی۔ کاغذات جعلی ہیں اور زید نے وعدہ کی خلاف  ورزی کی ہے۔ اب اس صورت میں سائل کا زید پر حق ہے یا نہیں؟ اگر فیصلہ رقم میں ہو تو جس پلاٹ کی زید نے  ابتد  ا میں بات کی تھی،  اس پلاٹ کی رقم وصول ہوگی یا قبضہ والی جگہ کی؟ حالانکہ مدرسے کے پاس  دو پلاٹ  جن کا زید نے  وعدہ کیا تھا، اب بھی موجود ہیں ۔پلاٹوں کی رقم  1997 کے ریٹ  کے حساب سے ہوگی یا موجودہ ریٹ کے حساب سے؟

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ زید نے یہ جگہ مجھے 1997ء میں بیچی تھی، اس کے چند ماہ بعد میں نے وہاں باؤنڈری لگانے کے لیے بندے بھیجے تو اصل مالکان آئے، ہمارے بندوں کو بھگا دیا اور پولیس کے ذریعے جگہ اپنے قبضے میں لے لی۔ میں نے زید سے کہا کہ وہ جگہ تو انہوں نے لے لی ہے تو اس نے کہا کہ یہ ہماری جگہ تھی لیکن انہوں نے اس پر قبضہ کر لیا ہے، ہم کیس کریں گے اور آپ کو یہ جگہ دلائیں گے، ورنہ متبادل جگہ دیں گے۔ اس کے بعد ہم مطالبہ کرتے تو وہ ٹال مٹول کرتے۔ اور اب کہہ رہے ہیں کہ ہم نے تو آپ کو جگہ بیچ کر کاغذات اور قبضہ دیدیا تھا، انہوں نے آپ سے قبضہ کی ہے، اس کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔  اصل مالکان نے 98-1997ء میں ہی قبضہ چھڑا کر اپنی وہ زمینیں آگے بیچ دی تھیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مفتی غیب نہیں جانتا، وہ سوال کے مطابق جواب لکھتا ہے، اگر سوال میں کوئی بات درست یا مکمل نہ ہو تو اس کی ذمہ داری سائل پر ہوگی۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کہ جواب یہ ہے کہ مذکورہ تفصیل کے مطابق زید نے اپنے مدرسے کے سامنے دو پلاٹ دینے کے وعدے پر آپ سے ستر ہزار روپیہ لیا، لیکن بعد میں وعدہ پورا نہیں کیا اور آپ کو وہ پلاٹ نہیں دئیے، بلکہ دوسری جگہ میں دو پلاٹوں کے کاغذات دئیے، اصولی طور پر آپ کو اس وقت یہ معاملہ رد کرنے اور اپنے پیسوں کے مطالبے کا اختیار تھا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا اور لڑائی جھگڑے سے بچنے کی خاطر اس متبادل جگہ پر راضی ہوگئے؛ اس لیے زید کے مدرسے کے سامنے جو دو پلاٹ ہیں، اب ان پر آپ کا کوئی حق نہیں۔  

جہاں تک ان دو پلاٹوں کا تعلق ہے جن کے کاغذات زید نے آپ کو دئیے تھے اور آپ کو ان کے پاس لے کر گیا تھا تو اس کا اصولی جواب یہ ہے کہ کاغذات دینے اور پلاٹوں کے پاس لے جاکر پلاٹ دکھادینے سے شرعا ان پلاٹوں پر آپ کا قبضہ ہوگیا تھا، اور زید تسلیمِ مبیع (مبیع مشتری کے سپرد کرنے) کی ذمہ داری سے بری ہوگیا تھا۔ بعد میں جب دوسرے لوگوں نے آکر آپ سے کہا کہ یہ زمین ہماری ہے تو یہاں سے "استحقاق فی المبیع" (بیع کے بعد یہ بات سامنے آنا کہ جو چیز خریدار کو بیچی گئی اس کا مالک فروخت کنندہ نہیں، کوئی اور ہے) کا مسئلہ شروع ہوا۔

اور استحقاق فی المبیع میں اصول یہ ہے کہ اگر مستحق شخص یعنی حقیقی مالک بینہ یعنی گواہوں کے ذریعے اپنی ملکیت ثابت کر کے عدالت کے ذریعے وہ جگہ خریدار سے لے تو خریدار کو اپنے بائع پر رجوع کرنے اور اس سے اپنی قیمت واپس لینے کا حق ہوتا ہے، لیکن اگر وہ بینہ کے ذریعے ملکیت ثابت نہ کرسکے، بلکہ خریدار خود اقرار کرے کہ یہ جگہ اس شخص (استحقاق کا دعویٰ کرنے والے) کی ہے، جس نے مجھے بیچی ہے اس کی نہیں، یا استحقاق کا دعویٰ کرنے والے کے پاس گواہ نہ ہونے کی صورت میں اس خریدار سے قسم کا مطالبہ کیا جائے اور وہ قسم اٹھانے سے انکار کرے تو ان دونوں صورتوں میں اسے بائع پر رجوع کا اختیار نہیں ملتا۔ لیکن یہ حکم قضاء کا ہے، دیانۃ حکم یہ ہے کہ اگر بائع نے واقعتا مشتری کو کسی اور کی جگہ بیچی ہو تو اقرار اور نکول کی صورت میں بھی اس پر لازم ہے کہ مشتری کو اس کے پیسے واپس کرے۔ بائع پر اتنے ہی پیسے واپس کرنے لازم ہوں گے، جتنے پیسے اس نے مشتری سے لیے ہوں۔

لہٰذا اس تفصیل کی روشنی میں آپ حضرات اپنے مسئلے کا تصفیہ کرسکتے ہیں، بہتر یہ ہے کہ صلح صفائی کے ذریعے معاملے کو حل کرلیں، بالخصوص جبکہ اس معاملے کو تقریبا تئیس، چوبیس سال ہوچکے ہیں۔  

حوالہ جات
الدر المختار (6/ 87):
]فرع[ في وقف الأشباه:  تخلية البعيد باطلةو فلو استأجر قرية وهو بالمصر لم يصح تخليتها على الأصحو فينبغي للمتولي أن يذهب إلى القرية مع المستأجر أو غيره فيخلي بينه وبينها أو يرسل وكيله أو رسوله إحياء لمال الوقف فليحفظ. قلت: لكن نقل محشيها ابن المصنف في زواهر الجواهر عن بيوع فتاوى قارىء الهداية أنه متى مضى مدة يتمكن من الذهاب إليها والدخول فيها كان قابضا، وإلا فلا، فتنبه، آه.
رد المحتار(6/ 87):
قوله ( عن بيوع فتاوى قارىء الهداية ) ونصها: -  سئل عن شخص اشترى من آخر دارا ببلدا وهما ببلدة أخرى وبين البلدتين مسافة يومين ولم يقبضها بل خلى البائع بين المشتري والمبيع التخلية الشرعية ليتسلم فهل يصح ذلك وتكون التخلية كالتسليم؟ أجاب: إذا لم تكن الدار بحضرتهما وقال البائع سلمتها لك وقال المشتري تسلمت لا يكون ذلك قبضا ما لم تكن الدار قريبة منهما بحيث يقدر المشتري على الدخول فيها والإغلاق، فحينئذ يصير قابضا، و فی مسألتنا ما لم تمض مدة يتمكن من الذهاب إليها والدخول فيها لم يكن قابضا، آه.
فتح القدير (6/ 297):
ولو باع دارا غائبة فقال سلمتها إليك وقال قبضتها لم يكن قبضا وإن كانت قريبة كان قبضا، وهى أن تكون بحال يقدر على إغلاقها وما لا يقدر على إغلاقها فهى بعيدة. وأطلق فى المحيط أن بالتخلية يقع القبض وإن كان المبيع يبعد عنهما. وقال الحلوانى: ذكر فى النوادر إذا باع ضيعة وخلى بينها وبين المشترى إن كان يقرب منها يصير قابضا أو يبعد لا يصير قابضا، قال: والناس عنه غافلون؛ فإنهم يشترون الضيعة بالسواد ويقرون بالتسليم والقبض، وهو لا يصح به القبض.
 الدر المختار (5/ 195):
( ويثبت رجوع المشتري على بائعه بالثمن إذا كان الاستحقاق بالبينة ) لما سيجيء أنها حجة متعدية ( أما إذا كان ) الاستحقاق( بإقرار المشتري أو بنكوله فلا ) رجوع؛ لأنه حجة قاصرة ( و ) الأصل أن ( البينة حجة متعدية ) تظهر في حق كافة الناس…..( لا الإقرار ) بل هو حجة قاصرة على المقر لعدم ولايته على غيره.
رد المحتار (5/ 195):
قوله ( إذا كان الاستحقاق بالبينة ) فلو أخذ المستحق العين من المشتري بلا حكم فهلك، فالوجه في رجوع المشتري على بائعه أن يدعي على المستحق أنك قبضته مني بلا حكم وكان ملكي، وقد هلك في يدك فأد إلي قيمته، فيبرهن أنه له فيرجع المشتري على بائعه بثمنه، جامع الفصولين، ومفهومه أنه لو لم يهلك فللمشتري منه استرداده حتى يبرهن فيرجع المشتري على بائعه إن لم يقر المشتري أولا بأنه للمستحق. ….. قوله (بإقرار المشتري) ولو عدل المشتري شهود المستحق قال: أبو يوسف أسأل عنهما، فإن عدلا رجع بالثمن، وإلا فلا؛ لأنه كإقرار،ذخيرة. قوله (أو بنكوله) كأن طلب المستحق تحليفه على أنك لا تعلم أن المبيع ملكي. قوله (فلا رجوع) فلو برهن المشتري أن الدار ملك المستحق ليرجع بثمنه على بائعه لا يقبل للتناقض؛ لأنه لما أقدم على الشراء فقد أقر أنه ملك البائع، فإذا ادعى لغيره كان تناقضا يمنع دعوى الملك، ولأنه إثبات ما هو ثابت بإقراره فلغا، أما لو برهن على إقرار البائع أنه للمتسحق يقبل لعدم التناقض، وأنه إثبات ما ليس بثابت ولا ببينة له، فله تحليف البائع بالله ما هو للمدعي؛ لأنه لو أقر لزمه، جامع الفصولين.
فقه البیوع (1/213):
 الاستحقاق: و هو أن یشتری زید من عمرو علی اعتقاد أنه هو المالك، ثم یتبین بالبینة أن المالك الحقیقی هو خالد، و لیس عمروا، فقد ذکر الفقهاء حکمه فی باب الاستحقاق بتفصیل.
و الموقف المختار عند الحنفیة أن البیع لا ینفسخ بمجرد ثبوت الاستحقاق، بل یبقی موقوفا علی إجازة المستحق إلی أن یقبض المستحق (المالك الحقیقی) المبیع، و یرد البائع الثمن إلی  المشتری. فإن أجاز المالك الحقیقی البیع، استمر المشتری علی ملکه، و رجع المالك الحقیقی بالثمن علی البائع. و إن لم یجزه، فالبیع مفسوخ، و یستحق أن یقبض المبیع من المشتری، و یرجع المشتری بالثمن علی البائع.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  21/رجب /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب