021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کے مرنے کے بعد شوہر کا اسے نہلانے اور دفنانے کا حکم
76266جنازے کےمسائلایصال ثواب کے احکام

سوال

میرا نام علی خان ہے، میں ایک سرکاری ملازم ہوں، میرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کی بیوی کا انتقال ہوجاتا ہے تو کیا ان کا نکاح ختم ہوجاتا ہے؟ بیوی کے انتقال کے بعد کیا مسلمان مرد اپنی فوت شدہ بیوی کا چہرہ دیکھ سکتا ہے؟ کیا اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے؟اس کے جنازے کو کندھا دے سکتا ہے؟ اسے قبر میں اتار سکتا ہے؟

میں نے یہ سنا ہے کہ مسلمان بیویاں جنت میں جانے کے بعد اپنے اپنے شوہروں کی بیویاں بنیں گی، اس کے علاوہ یہ بھی سنا ہے کہ مسلمان مرد کی بیوی جنت میں اس کو ملنے والے حوروں کی سردار ہوگی۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بیوی کے انتقال کے بعد نکاح ٹوٹ جاتا ہے یا ختم ہوجاتا ہے توآخرت میں وہی عورت اپنے شوہر کی بیوی کس طرح بنے گی؟ کیا ان کا نکاح دوبارہ ہوگا؟ یا پھر تجدید نکاح کی کوئی صورت ہوگی؟

برائے مہربانی میرے تمام سوالات کے اور ان سے منسلک دیگر مسائل کا شریعت مطہرہ، قرآن اور حدیث مبارکہ کی روشنی جوابات عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر کسی مسلمان کی بیوی فوت ہوجائے  تو اس کے فوت  ہوتے ہی دونوں کے درمیان نکاح ختم ہوجاتا ہے ، اس  لئے مرد  بغیر حائل  کے  اپنی  بیوی  کو چھونہیں سکتا  اور  اسے نہلا بھی نہیں سکتا، البتہ مرد اپنے فوت شدہ بیوی کا  چہرہ دیکھ سکتا ہے اور اس کے جنازے کو بھی کندھا دے سکتا ہے۔ عام حالات  میں بہتر یہی ہے کہ خاتون کو اس  کے محارم  قبر میں اتاریں  لیکن اگر یہ نہ ہوں  تو اس صورت میں مرد  کو شرعا اس  بات کی گنجائش ہے  کہ وہ اپنی بیوی  کو قبر میں اتارے۔

 مرحومہ بیوی کا جنت میں بیوی ہونا صحیح احادیث  سے ثابت ہے ۔ دنیا میں فوت ہونے    کے بعد نکاح ٹوٹنے  کی وجہ سے  وہ دوبارہ جنت میں اللہ  کے حکم  سے بغیر تجدید نکاح  رشتہ ازدواج  میں منسلک ہوں گے از سر نو نکاح کی ضرورت  نہیں ہوگی ؛ کیونکہ اخروی زندگی کی نوعیت  دنیوی زندگی سے بالکل الگ ہے۔ اس لئے آخرت کی زندگی کو  دنیا کی زندگی پر قیاس  نہ کیا جائے۔

حوالہ جات
تفسير ابن كثير (7/ 433)
عن ابن عباس -أظنه عن النبي صلى الله عليه وسلم-قال: "إذا دخل الرجل الجنة سأل عن أبويه وزوجته وولده، فيقال: إنهم لم يبلغوا درجتك. فيقول: يا رب، قد عملت لي ولهم. فيؤمر بإلحاقهم به، وقرأ ابن عباس { وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ } الآية (4) .
المبسوط للسرخسي (2/ 71)
ولو ماتت امرأة بين الرجال وفيهم زوجها لم يكن له أن يغسلها عندنا.
 (لنا) حديث ابن عباس - رضي الله عنهما - «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - سئل عن امرأة تموت بين رجال فقال: تيمم الصعيد» ولم يفصل بين أن يكون فيهم زوجها أو لا يكون والمعنى فيه أن النكاح بموتها ارتفع بجميع علائقه فلا يبقى حل المس والنظر كما لو طلقها قبل الدخول وبيان الوصف أنها بالموت صارت محرمة ألبتة والحرمة تنافي النكاح ابتداء وبقاء ولهذا جاز للزوج أن يتزوج بأختها وأربع سواها.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 213)
 والمراد بالإبدال في الأهل والزوجة إبدال الأوصاف لا الذوات {ألحقنا بهم ذريتهم} [الطور: 21] ولخبر الطبراني وغيره «إن نساء الجنة من نساء الدنيا أفضل من الحور العين» " وفيمن لا زوجة له على تقديرها له أن لو كانت ولأنه صح الخبر بأن المرأة لآخر أزواجها: أي إذا مات وهي في عصمته وفي حديث رواه جمع لكنه ضعيف «المرأة منا ربما يكون لها زوجان في الدنيا فتموت ويموتان ويدخلان الجنة لأيهما هي؟ قال: لأحسنهما خلقا كان عندها في الدنيا» وتمامه في تحفة ابن حجر

محمد نصیر

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 05/ شعبان المعظم /1443ھ                

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب