021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک دفعہ ایصال ثواب کیےہوئے” ختم قرآن” سےدوسروں کےلیےدوبارہ ایصال ثواب کرنا
76572متفرق مسائلمتفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام و علماء عظام اس مسئلےکےبارےمیں کہ حافظ محمد عاصم صاحب نے تلاوتًا قرآن مجید ختم کیا اور اس تلاوت کردہ قرآن مجید کا ثواب مرحومین وغیرہ کو بخش دیا،ازیں بعد محمد اسحاق صاحب آئے اور حافظ محمد عاصم صاحب سے کہا کہ اگر آپ کے پاس تلاوت کیا ہوا قرآن کریم کا ختم ہوتو وہ مجھے دےدو، میں نے اپنے بزرگوں کو ایصال ثواب کرنا ہے۔اس پر حافظ محمد عاصم صاحب نے کہا کہ میرے پاس ایک یا کئی ختم تھے جو میں مرحومین کو ایصال ثواب کرچکا ہوں وہی لےلو۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایصال ثواب کیا ہوا ختم قرآن کسی کو دوبارہ ایصال ثواب کے لئے دیا جا سکتا ہے یا نہیں؟قرآن و حدیث کی روشنی میں مسئلہ ھذا کی مدلل وضاحت قلم بند کریں۔اللہ تعالی آپ کے علم،عمل، عمر اور رزق میں برکت عطا فرمائے  آمین

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرکوئی شخص یاجماعت تلاوت کرکےقرآن مجیدکاختم کرےاوربعدمیں اپنےمرحومین سمیت  دوسروں کےلیے بھی ایصال ثواب  کی نیت کرے بلکہ اگرپوری امت مسلمہ کےلیےبھی ایصال ثواب  کی نیت کی تواللہ تعالی ان سب کوثواب پہنچادینےپرقادرہیں۔ایصال ثواب اوردعاؤں وغیرہ میں بالخصوص  اپنےمرحومین اوربالعموم دوسروں کوبھی شریک کرناچاہیے۔

ایک دفعہ ایصال ثواب کی غرض سے"ختم قرآن یاکوئی اورنیکی"کسی کےلیےخاص کرکےاوراسےثواب پہنچانے کےبعددوبارہ کسی اورکو ایصال ثواب کرنا اس حوالےسےکسی دلیل سےثبوت نہیں ملا،جبکہ اس کاثبوت کسی نقلی دلیل سےہوناضروری ہے،لہذاحافظ محمدعاصم کا یہ کہنا کہ میرے پاس ایک یا کئی ختم تھے جو میں مرحومین کو ایصال ثواب کرچکا ہوں وہی لےلو،اس طرح سےایصال ثواب کرنا  درست نہیں۔

البتہ اگرکسی نےختم قرآن یاکوئی اورنیکی کی ہوپھراس کاثواب محفوظ کرلیاہواس غرض سےکہ اگربعدمیں کسی کی وفات ہوئی تواسےثواب پہنچاؤں گاتوتب ماضی کی نیکی سےثواب پہنچایاجاسکتاہے۔

حوالہ جات
قال اللہ تبارك وتعالی:
﴿‌رَبِّ ‌اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ
إِلَّا تَبَارًا﴾ [نوح: 28]﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ﴾ [إبراهيم]
 «حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (2/ 243):
صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: ‌الأفضل ‌لمن ‌يتصدق ‌نفلا ‌أن ‌ينوي ‌لجميع ‌المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء اهـ هو مذهب أهل السنة والجماعة
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (2/ 608):
ولم يتحقق ذلك لأنه يمكنه التعيين إلا إذا شرع في الأعمال ولو شوطا لأن الأعمال لا تقع لغير معين فتقع عنه ثم لا يمكنه تحويلها إلى غيره، وإنما له ‌تحويل ‌الثواب فقط، ولولا النص لم يتحول الثواب أيضا. وفي الصورة الثالثة لا خفاء أنه ليس فيها مخالفة لأحد الآمرين ولا تعذر التعيين ولا تقع عن نفسه لما قدمناه. وأما الرابعة فأظهر الكل. اهـ ما في الفتح ملخصا
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (2/ 607):
قلت: والحاصل أن صور الإبهام أربعة: أن يهل بحجة عنهما وهي مسألة المتن، أو عن أحدهما على الإبهام، أو يهل بحجة ويطلق، والرابعة أن يحرم عن أحدهما معينا بلا تعيين لما أحرم به من حج أو عمرة، ولم يذكر الشارح الرابعة لجوازها بلا خلاف كما في الفتح وقد ذكر في الفتح أن مبنى الجواب في هذه الصور على أنه إذا وقع عن نفس المأمور لا يتحول بعد ذلك إلى الآمر وأنه بعد ما صرف نفقة الآمر إلى نفسه ذاهبا إلى الوجه الذي أخذ النفقة له لا ينصرف الإحرام إلى نفسه إلا إذا تحققت المخالفة أو عجز شرعا عن التعيين

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۱۷شعبان۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب